Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

محبت، مرمت اور مذمت

ملکی صورت حال گاہے گاہے رنگ بدلتی رہتی ہے۔ مگر ہم ہر موضوع پر بات نہیں کرتے۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ اِک انبار جمع ہو جاتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں کہ کتنے ہی حادثے، سانحے گذر گئے مگر ہمیں لکھنا نصیب نہ ہوا: 


سانحہ ِ 9 مئی، سانحہ ِ بہاولنگر، سانحہ ِ کھاریاں۔


 9 مئی پر تو ہم ڈر کے مارے بھی چپ تھے ۔ لیکن بہاولنگر پر 'گلی گلی نگر نگر' اور واقعہِ کھاریاں پر 'بوہے باریاں' کے عنوان سے لکھنے کا سوچ رکھا تھا مگر نہ لکھا گیا۔ اب ہم اِن تینوں قومی واقعات کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں گے اور ایک ہی کالم میں سب حساب چکتا کریں گے۔


کریں گے یہ کہ ایک محبت (جس سے بڑا سانحہ تو شاید اب تک نہ ہوا) کا شعر/مصرع لیں گے۔ اور پھر اُسے بہاولنگر اور کھاریاں والے ' مرمتی واقعات' سے بدل دیں گے۔ 9 مئی چونکہ الگ پہچان کا حامل ہے تو اس کے لیے علیحدہ'مزمتی جگل بندی' کی جائے گی۔ اب بس دیکھتے جائیے کہ تاریخ کیسے سمٹتی ہے:


سب سے پہلے دیکھئے گا کہ 

میرا پیغام محبت ہے ، جہاں تک پہنچے


اب ذرا  'گلی گلی نگر نگر ' اور 'بوہے باریاں' کو ذہن میں لا کر پڑھیے:


میرا پیغام 'مرمت' ہے ، جہاں تک پہنچے


ساری قوم مذمت کرے اور ہم پیچھے رہ جائیں؟  نہ کا کا ، نہ، ذرا ہمارا اندازِ مذمت ملاحظہ ہو۔ 


میرا پیغام 'مذمت'ہے، جہاں تک پہنچے


بس ، اب پیٹرن آپ نے سمجھ لیا ہے۔ اب بس دیکھتے جائیے:


ایک مشہور قوالی کا ٹکڑا پیش ِِ خدمت ہے:

ہم نہ باز آئیں گے محبت سے

جان جائے گی اور کیا ہو گا


اب ذرا 'آئینی ' ترامیم ملاحظہ ہوں:

ہم نہ باز آئیں گے 'مرمت 'سے

ہم نہ باز آئیں گے 'مذمت' سے


فیض صاحب کو جانتے ہی ہوں گے؟ ذرا اُن کے 'نئے' اشعار سے لطف اُٹھائیں:

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا


اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں 'مرمت' کے سوا

اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں'مذمت' کے سوا


غالب  بھی بہت پہلے اِن واقعات کا اپنی شاعری میں تذکرہ چھوڑ گئے تھے:

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

'مرمت' میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

'مذمت' میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا


جون ایلیاء کو تو یو ٹیوب پہ سُنا ہی ہو گا۔ اُن کا یہ شعر ہماری اختراعات کے ساتھ پڑھیں۔ نیا مزہ ملے گا:

زندگی کس طرح بسر ہوگی 

دل نہیں لگ رہا محبت میں 


دوسرا مصرع ذرا حسب ِ حال کرتے ہیں:

دِل نہیں لگ رہا 'مرمت' میں

دِل نہیں لگ رہا 'مذمت' میں


فیض پھر آ گئے ہیں۔ بڑے شاعر جو ہوئے:

دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے


دونوں جہان تیری'مرمت' میں ہا ر کے

دونوں جہان تیری 'مذمت' میں ہا ر کے


بشیر بدر بھی ہمسایہ ملک سے اپنا حصہ ملاتے ہیں:

محبتوں میں دِکھاوے کی دوستی نہ ملا

اگر گلے نہیں ملتا تو ہا تھ بھی نہ ملا


اب  ذرا مرمتی اور مذمتی رنگ دیکھیے گا:

'مرمتوں'میں دِکھاوے کی دوستی نہ ملا

'مذمتوں'میں دِکھاوے کی دوستی نہ ملا


غلام محمد قاصر کسر ِ نفسی سے کام لیتے ہیں:

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا


سانحات کے تڑکے کے ساتھ ذائقہ چکھ کر دیکھیں:

کروں کا کیا جو 'مرمت' میں ہو گیا ناکام

کروں گا کیاجو 'مذمت' میں ہو گیا ناکام


فراق گورکھپوری بھی ظاہر ہے کوئی کم بڑے شاعر تو نہیں تھے:

ہم سے کیا ہو سکا محبت میں

خیر تم نے تو بے وفائی کی


اسے بھی اپنے پن کا ٹچ لگا تے ہیں:

ہم سے کیا ہو سکا'مرمت' میں

ہم سے کیا ہو سکا 'مذمت' میں


بشیر بدر کا ایک اور شعر کئی کتابوں پر بھاری پڑ سکتا ہے:

تم محبت کو کھیل کہتے ہو

ہم نے برباد زندگی کر لی


تم 'مرمت' کو کھیل کہتے ہو

تم'مذمت' کو کھیل کہتے ہو


نشور واحدی کو پہلے ہم بھی نہیں جانتے تھے مگر کہتے ہیں کہ 

انجامِ وفا یہ ہے جس نے بھی محبت کی

مرنے کی دُعا مانگی، جینے کی سزا پائی


پہلا مصرعہ ترمیم  مانگتا ہے:

انجامِ وفا یہ ہے جس نے بھی 'مرمت' کی

انجامِ وفا یہ ہے جس نے بھی 'مذمت' کی


شکیل بدایونی بات تمام کرتے ہیں  اور اسی کے ساتھ ہم بھی:

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا


تھوڑی ٹھونک بجا کے بعد:

اے 'مرمت' ترے انجام پہ رونا آیا

اے 'مذمت' ترے انجام پہ رونا آیا


لکھنا تو عباس تابش اور فرحت عباس شاہ کی'اِدارہ جاتی' چپقلش پہ بھی تھا۔ عروض پہ بھی کچھ مضامین باندھنے تھے مگر ۔۔۔چاہیں تو تمامی فریق، اِسی لکھے کو اپنے حسب ِ حال  سمجھیں۔ 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے