جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
امیر مینائی
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا
بیخود بدایونی
ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے
اختر شیرانی
تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف
آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ
جلیل مانک پوری
غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے
مرزا غالب
0 تبصرے