Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

پاکستان کرکٹ اپنا مستقبل کیسے سنوار سکتی ہے

 

pakistan cricket future

اب جس کے دل میں آئے وہی پائے روشنی
(پاکستان کرکٹ اپنا مستقبل کیسے سنوار سکتی ہے؟)

ویرات کوہلی بطور کپتان ٹرافی نہ جیت سکا تو اسے کسی نے اپروچ بدلنے کا نہیں کہا۔ اس ورلڈ کپ میں اس نے اپنے تیئں تیز کھیلنے کی پوری کوشش کی مگر بری طرح ناکام ہوا۔ فائنل میں اپنی پرانی روش پر کھیلتے ہوئے ہی وہ کامیاب ہوا۔ بطور کپتان ٹرافیاں نہ جیتنے پر اسے بھی گالیاں پڑیں۔ ٹیگ لگائے گئے کہ اپنے لیے کھیلتا ہے، خود غرض ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پھر روہت شرما کو کپتانی دے دی گئی۔ اور اس نے وہ کر دکھایا جو اس سے پہلے، اس صدی میں، صرف دھونی کر پایا تھا۔

تو ہمیں بابر ٹرافی نہیں جتوا پایا۔ وہ کپتان میٹیریل نہیں، مان لیا، وہ انڈر 19 میں بھی فائنل نہیں جیت پایا تھا۔ تو آپ کو اسے کپتان بنانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ رضوان جیسے زیرک بندے کے ہوتے ہوئے بابر کو کبھی کپتان نہیں ہونا چاہیے تھا۔

آپ بابر سے کپتانی لے لیں۔ مگر اسے بیٹنگ اپروچ بدلنے کا نہ کہیں۔ آپ اسے اوپنر کے طور پر نہ کھلائیں۔ اوپنرز کا کام تیز کھیلنا ہے۔ آپ کو پاورپلے میں 50 سے 60 رنز درکار ہیں۔ تو ایسے اوپنر تلاش کر لیں۔ لیکن خدارا ان پر یہ واضح کر دیں کہ آپ سے 15، 15 گیندوں پہ 30، 30 رنز ہر صورت چاہئیں۔

اوپنرز کے بعد نچلی دو پوزیشنوں پر بابر اور رضوان کو کھلائیں۔ انہیں بھی کلیئر کٹ بتائیں کہ آپ دونوں سے 20،20 گیندوں پر 30، 30 رنز درکار ہیں۔ 130/140 اسٹرائیک ریٹ کو 150 کرنا یقیناً ان دونوں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہو گا۔ ماضی قریب میں شعیب ملک، محمد حفیظ وغیرہ اس سے بھی کم سٹرائیک ریٹ کے ساتھ کھیل کر ٹیم کو جتواتے رہے ہیں۔

پانچویں اور چھٹے نمبر کے لیے آپ کو سلمان علی آغا ٹائپ ایک مکمل بیٹسمین اور ایک عامر جمال طرز کا بیٹنگ آل راؤنڈر درکار  ہے۔ جو اچھے آغاز کو تیزی سے بڑے ہدف کی شکل دے سکیں۔ اور ٹاپ آرڈر کی ناکامی کی صورت میں بوقتِ ضرورت اننگز کی تعمیر و مرمت بھی کر سکیں۔

ساتویں سے گیارہویں نمبر تک آپ کے اسپیشلسٹ باؤلر ہوں گے مگر وہ بھی پاور ہٹنگ کے تربیت یافتہ ہوں۔ اور بنیادی تکنیک کی شد بدھ بھی رکھتے ہوں۔ انہیں اچھی اور خراب بال کا فرق معلوم ہو اور یہ بھی علم ہو کہ خراب گیند سے کس طرح فائدہ لیا جاتا ہے۔

اگر ہر میچ میں 200 کا ہدف غیر حقیقی لگ رہا ہے تو کم از کم 185 کے لیے ضرورجانا چاہیے۔ اور یہ بات تمام کھلاڑیوں کو ازبر ہونی چاہیے کہ اس سے کم پر کوئی جائے پناہ نہیں۔

باؤلنگ میں اسپیڈ گن سے زیادہ درستی معنی خیز ثابت ہوتی ہے۔ سو، آپ ایکسپریس پیس کے حامل باؤلرز کی درستی اور ورائٹی پر کام کریں۔ ڈومیسٹک کے سب سے بہتر اکانومی ریٹ والے باؤلرز کو منتخب کریں۔ صرف اور صرف لیگ کرکٹ میں پرفارمنس سلیکشن کا معیار نہیں ہونی چاہیے کیونکہ آج کل لیگوں کی بھرمار کھلاڑیوں کے ارتکاز کو متاثر کر رہی ہے۔ اسی وجہ سے لیگز کے چیمپئن، ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل لیول پر ٹھس ہو جاتے ہیں۔

باؤلنگ میں آپ کے پاس دائیں بائیں ہاتھ کے تیز اور سلو( آف،لیگ، آرتھوڈوکس، ان آرتھوڈوکس،مسٹری) تمام طرز کی ورائٹی ہونی چاہیے۔ حتمی الیون کا انتخاب مخالف ٹیم کی کمزوریاں دیکھ کر کیا جانا چاہیے۔

آخری بات یہ کہ سابقہ ریکارڈ کے ساتھ کھلاڑیوں کی موجودہ فارم کو بھی مدنظر رکھا جانا ضروری ہے۔ اور فٹنس پر کمپرومائز صرف اسی صورت میں ہونا چاہیے اگر ڈان بریڈ مین یا ڈنیس للی کے لیول کا کوئی پلئیر  منتخب کرنا ہو۔ ہر للو، پنجو کے لیے اصول ضابطے بدلیں گے تو رسوائی ہی مقدر ٹھہرے گی۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے