سہیل
احمد کا شمار پاکستان کے جانے مانے اداکاروں
میں ہوتا ہے ۔ ان کا تعلق
گوجرانوالہ سے ہے اور وہ بنیادی طور پر کامیڈین ہیں ۔ کمال کا جملہ کہنا اور اس
میں بلا کی بے ساختگی بھر دینا ان پر بس
ہے ۔ایک معروف نیوز چینل 'دنیا 'کے لیے گزشتہ کئی سالوں سے ان کا سیاسی مزاح کا پروگرام 'حسب ِ
حال'عالمگیر شہرت حاصل کرچکاہے ۔ اس شو میں
'عزیزی 'کے نام سے پہچانے جانے والے سہیل احمد اَن گنت بہروپ بھر چکے ہیں اور ایک عالم کو اپنا دیوانہ بنا چکے ہیں۔ لیکن میرا یہ تمہید باندھنے کا مقصد کا اُن
کاایک شو میں کہا گیا صرف ایک جملہ ہے ۔
ایک
دفعہ وہ کلاسیکل گلوکار کا رُوپ دھارے بیٹھے تھے ۔ان کے چیلوں میں سے
ایک نے کوئی بات چھیڑی تو وہ لگے اُسے ڈانٹنے:
''بے وقوف آدمی!یہ نیوز کی زبان ہے ، جہاں پر کسی خبر کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہ لینی ہو ۔وہاں ' مبینہ طورپر
'استعمال کر تے ہیں ''
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
سہیل
احمد عزیزی کی یہ بات کرسٹینا لیمب اور ملالہ یوسف زئی کی مشترکہ طور پر لکھی گئی
کتاب 'آئی ایم ملالہ 'پڑھتے ہوئے بارہا میرے ذہن میں آئی۔یہ کتاب ملالہ کی اب تک کی زندگی کی کہانی
ہے ۔اور رائیٹنگ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اس کے لکھنے میں ملالہ کا حصہ آٹے میں نمک جتنا بھی نہیں ہے۔
کرسٹینا لیمب ایک پیشہ ور صحافی ہیں اور ان کے خیالات اور تجزیہ کتاب کی ہر سطر سے
جھانکتاہوا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ کتاب کئی حوالوں
سے بہت اچھی ہے ۔ایک تو یہ کہ اس کی ترتیب و تدوین کمال کی ہے ۔ مجال ہے جو
کوئی صفحہ ، کوئی پیراگراف یا ایک لفظ بھی اِدھر اُدھر ہو جائے ۔ اتنے حساس موضوع
کو کافی حد تک غیر جانبداری سے نبھانا بھی کوئی چھوٹی بات ہرگز نہیں ہے۔لیکن مجھے کتاب پڑھتے ہوئے جہاں اعتراض تھا وہ صرف جانبدار مواقع پر اس کے
محتاط اندازِ بیان پر ہے ۔
کتاب بھر میں
واحد متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور پڑھتے ہوئے ملالہ اپنے گزرے
ہوئے روزوشب کی کہانی سناتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔باقی تمام باتوں اور نظریات کے حوالے سے وہ بہت بے باک اور نڈر
بولتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔وہ اپنے نام کی وجہ تسمیہ اور پختونوں کی تمام روایات بہت فخر سے بیان کرتی ہے ۔اپنے
والد اور ننھیال ددھیال کا تذکرہ بڑی محبت سے کرتی ہے ۔ لیکن جہاں پر فوج کے حوالے کچھ ذومعنی بات یا ذرا سخت
لفظوں میں ہرزہ سرائی کہہ لیں کرنی ہو۔ وہاں
پر ایسا ہی کچھ' مبینہ طور پر ' کا بے دریغ استعمال ملتا ہے ۔لکھا ہوا ملتا
ہے کہ
'
کچھ لوگوں کا کہناہے کہ فوج ایسے کرتی تھی
'
'کچھ لوگوں
کے خیال میں ایسا فوج کے نہ چاہنے
کے باوجود ہو نہیں سکتا تھا '
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہاں پر صاف لگتا ہے کہ سر میں گولی کھانے والی ملالہ اس بات پرسپاس گزار
نہیں کہ آرمی نے اُسے ریسکیو کیا اور
برمنگھم تک اس کے علاج میں مدد دی بلکہ
اسے اس بات کا جواب پہلے چاہیے کہ اسے ریجنل آرمی ہیڈ کوارٹر سے آدھا کلو میٹر دور
آخر نشانہ ہی کیوں بنایا گیا۔
گل
مکئی کے فرضی نام کے ساتھ ڈائری لکھنے والی اور جیو پر لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں جہاد کرنے والی بہادر لڑکی جب اپنا قد لمبا
ہونے کی دعائیں مانگتی ہے ۔ جب کچرا چننے والے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا چاہتی تو بالکل بھی
اجنبی نہیں لگتی لیکن جب اپنی فوج کے خلاف
بات کرتی ہے تو اس کا لہجہ اس کی عمر اور سوچ سے میل کھاتا ہو ا معلوم نہیں ہوتا ۔ یہاں
کہیں ملالہ کے چہرے کے پیچھے سے
کرسٹینالیمب کا تاریخی برطانوی تعصب جھانکتا ہوا نظر پڑتا ہے ۔ نجانے کیوں لیکن یہاں
پر مجھے کرسٹینا لیمب کا پیشہ ور قلم بھی پارشلزم کا شکار ہوتا دکھائی
دیتاہے ۔
اور
یہ بات تو ملالہ کے ذہن میں شاید بتانے پر
بھی نہیں آسکتی۔ بچے کو آپ جتنا مرضی
ورغلا لیں ' لیکن وہ اپنے کھلونے ، اپنے
گھر اور اپنے گھر والوں کے خلاف کچھ بھی
ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔مجھے لگتا ہے کہ
اگر ایسی چند باتیں شامل نہ ہوتیں تو یہ ایک حقیقی اور سچی آپ بیتی ہوتی لیکن اگر
ایسی باتیں شامل نہ ہوتیں تو شاید اسے وہ پذیرائی اور بیسٹ سیلر بک کے
ایوارڈز بھی نہ ملتے ۔ اور جدید میڈیا اور صحافی ڈیڑھ دو سو مرتبہ 'مبینہ طور
پر'کا استعمال تو کرسکتے ہیں لیکن
'ریٹنگ'نہ ملنا برداشت نہیں کر سکتے۔
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
0 تبصرے