Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

بات پہنچی تیری جوانی تک

Baat Paunchi Teri Jawani Tak, Asad, Asad Mahmood, Comics, Urdu Comics, Columns, Urdu Columns, Urdu Columns today, Urdu Column Online, Urdu Column Javed Ch, Urdu Column daily, urdu column kaar, urdu column writers, urdu comedy jokes, urdu comic writers, Comic book column, Latest, 10K reviews, Best

یونیورسٹی میں  فراغت اور پڑھائی کا کوئی خاص شیڈول نہیں  ہوتا۔فراغت ہو تو مسلسل اور اگر پڑھائی شروع ہوجائے تو پھر وہ بھی ختم ہونے میں  نہیں  آتی۔انسان کہ تبدیلی چاہتا ہے،ایک ہی طرح کے معمولات سے اُکتا جاتا ہے ۔بنی اسرائیل بھی تو محض آسمانی غذائیں  کھا کھا  کے دِنوں  میں  جی بھر بیٹھے تھے، جبھی تو موسیٰؑ   کے حضور جا پہنچے کہ حضرت !من و سلویٰ بہت کھا لیا،اپنے ﷲ سے کہہ کر ککڑی اور ساگ پات کا انتظام کرایئے!

یونیورسٹی میں چند دن کی تعطیلات ہوئیں تو میں  نے گھر کے لیے رخت ِسفر باندھا۔ ایک صبح قریبی شہر جانے کا ارادہ کیا۔ گھر سے نکلا تو ساتھ ہی ایک روڈ پہ پاپیادہ مٹر گشت کو جی چاہا۔ سو، پیدل ہی چل دیا۔ ابھی اپنے گاؤں  کی حدود میں  ہی تھا کہ آگے سے ایک خاتون سر پہ چارہ اُٹھائے آتی دکھائی دیں ۔قریب آکر انہوں  نے چند لمحے تو مجھے گھورا اور پھر گٹھری عین سٹرک کے بیچ دے ماری اور مجھے رُکنے کا نادر شاہی حکم سنا ڈالا۔میرا خیال تھا کہ شاید گٹھری اُٹھانے کا کہیں  گی۔ لیکن وہ تو انٹرویو لینے پہ اُتر آئیں ۔

''تم اسد ہو؟''

''جی ہاں '' میں  نے گھبراہٹ میں  شناختی کارڈ نکال لیا۔

''کچھ دن پہلے میرا چھوٹا بیٹا اخبار لایا تھا''انہوں  نے جتانے والے انداز میں  کہا ۔

''خالہ جان!یہ تو بہت اچھی بات ہے '' میں  نے تعریفی پیرایہ اختیار کیا ۔

''کیا اچھی بات ہے؟''وہ احتجاجاََچلائیں ۔

''اخبار پڑھنا خالہ جان!''میں  ہکلا کر بولا۔

''اُس اخبار میں  وہ لڑکی نہیں  تھی ،جو قتل ہوگئی تھی،اس کا تصویر چھپی تھی'' انہوں  نے قریبی گاؤں  میں  چند ہفتے قبل ہونے والی ایک واردات کا تذکرہ کیا۔

 میں  نے اس خبر کے بارے میں  سرسری سا سنا تھا لیکن یہاں  بیچ سڑک پہ روک کے مجھے یہ خبر سنانے کی وجہ میری سمجھ سے بالا تھی۔''اخبار کے ایک سرے پہ اُس لڑکی کی تصویر تھی اور دوسرے سرے پہ تمہاری''انہوں  نے میرے قدموں  میں  گویا ایٹم بم دے مارا۔ ''میں  تو اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی کہ وہ تم نہیں  ہو لیکن وہ اصرار کر رہا تھا کہ تصویر تمہاری ہی ہے''۔وہ خاتون نہ جانے کہاں  کی کڑیا ں  کہاں  ملا رہی تھی۔ میں  فقط دم بخود سنتا گیا۔''میں  نے تو اسے کہا بھی کہ دنیا میں  انسان کے سات بہروپ ہوتے ہیں  لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں  تھا'' اب انہوں  نے ایک نئے فلسفے سے مجھے روشناس کرایا لیکن میں  بولتا تو بھلا کیا، بات کا سر تھا نہ پیر ۔اور وہ خاتون پولیس کی طرح مشکوک نظروں سے مجھے دیکھتے ہوئے بولے ہی جارہی تھی۔ ''اب تم بتاؤ، کیا وہ تم ہی تھے؟''انہوں  نے بالآخرمجھے صفائی کا موقع دے ہی دیا۔

''اخبار کون ساتھا خالہ؟'' میں  ان کے تابڑ توڑ حملوں  سے کافی محتاط ہو چکا تھا ۔

''اخبار کا تو مجھے پتہ نہیں  ،وہ ساتھ والے شہر سے لایا تھا''۔''طلب ِصادق تو نہیں  تھا؟'' بات کسی حد تک میرے پلے پڑی تھی۔

''یہ تو مجھے نہیں  پتہ''انہوں  نے صاف انکار کردیا۔

میں  نے بات صاف کرنے کی کوشش کی :''خالہ !بات یہ کہ میں  ایک اخبار میں  کالم لکھتاہوں ،ہو سکتا ہے ،آپ نے وہاں  میری تصویر دیکھ لی ہو''

''تو گویا وہ تصویر تمہاری ہی تھی'' انہوں  نے تصدیق چاہی۔ اب میں  سوائے سر پیٹنے یا بال نوچنے کے(اپنے) کچھ نہ کر سکتا تھا۔سو، ایک بار پھر وضاحت کرنے کی کوشش کی:''خالہ!میں  'طلب ِصادق ' میں  ہر ہفتے کالم لکھتا ہوں ،اگر آپ نے وہ اخبار دیکھا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ نے وہی کالم دیکھ لیا ہو''۔موصوفہ کے چہرے سے لگتا تھاکہ انہیں  میری بات کا یقین نہیں  آرہا ۔اب یوں  سر راہ میں  بھی کوئی مزید'' رِسک'' لینے کے موڈ میں  نہ تھاکیونکہ خالہ جان سے کچھ بعید نہیں  تھا کہ وہ تمام 'واردات' کے ڈانڈے 'بین الاقوامی سازشوں ' سے ملاتے ہوئے مجھے 'القاعدہ' یا 'حقانی نیٹ ورک' کا ایجنٹ قرار دے دیں ۔سو، میں انہیں  بیچ سٹر ک غوروفکرمیں  غلطاں  چھوڑ کر آگے چل دیا۔!

 خاطر غزنوی کا معاملہ میرے حال سے یکسر مختلف تھا جو وہ کہہ گئے ہیں :

میں  اسے شہرت کہوں  یا اپنی رُسوائی کہوں ؟

مجھ سے پہلے اُس گلی تک میرے افسانے گئے

شاعر موصوف کو میرے متعلق بھی کچھ کہنا چاہیے تھا کہ' اُس' گلی والے اگر فسانہ گر بھی خود ہی بن جائیں  تو پھر کیا ہونا چاہیے؟۔مجھے البتہ وہ شعر رہ رہ کر یاد آنے لگاکہ

ذکر جب چھڑگیا قیامت کا

'بات پہنچی تیری جوانی تک'

مزید دِل چسپ  بلاگ)یہ ہم نہیں، لوگ کہتے ہیں):

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے