جو
لوگ اِس ترکیب اور اس کے 'ترکیب ِ استعمال' سے ناواقف ہیں اُن پرافسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ویسے اُن سے تعزیت بھی بنتی ہے کہ بقول شخصے
''افسوس اُن غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے''
اِس 'اصطلاح' سے کماحقہ آگاہی کے لیے کسی ڈکشنری کا سہارا مت لیں بلکہ
ایسا کریں کہ پہلی فرصت میں کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں۔
ہمیں بھی کافی عرصہ تک پطرس کا 'ٹھنڈی سڑک کی سیرکو
نکل گئے ' سمجھ نہ آتا تھا۔ پھر یونیورسٹی
کے دِنوں میں ایک روز اتفاق سے شام کو مال روڈ پر نکل گئے اورپھر جب رات گئے ' سکتہ 'ٹوٹا تو پطرس کو پردہ
داری اور راحت اندوری کو تخیل کی داد دیے بغیر رَہ نہ سکے:
چلتے پھرتے ہوئے مہتاب
دکھائیں گے تمہیں
ہم سے ملنا کبھی پنجاب دکھائیں
گے تمہیں
ہم کہ اِس میدان کے نووارد
تھے ۔ کتابوں کھنگالیں
تو اِس ضمن میں کہیں پہ کچھ بھی نہ
پایا۔ عطاءالحق قاسمی کے سفر نامے
میں ہلکی سی جھلک ملی جو پیرس میں ایک پری جمال سے مخاطب تھے:
''کچھ دِن پہلے ایک بوڑھی
عورت نے مجھے بتایا تھاکہ قیامت قریب آگئی ہے ، وہ بالکل ٹھیک تھی کیونکہ وہ میرے
سامنے کھڑی ہے ''
ہم نے قاسمی صاحب کو اُستاد
مان کر یہ حربہ آزمایا لیکن کارگر نہ ہوا۔ NCAکے
سامنے ایک لمبے بالوں والی حسینہ کو ہم نے
جب کہا کہ
''تمہیں دیکھ کر کسی کی
بھی قوت ِ گویائی سلب ہوسکتی ہے ''
تو اُسے تو کیا سمجھ آنی
تھی دو چار منٹ ہم خود بھی دم بخود رہے کہ
جانے کیا کہہ دیاہے۔ اورپھر جب دوسرا پتہ
یوں پھینکاکہ
''تمہیں دیکھ کر ہکا بکا
رہنے پہ ہی کیا موقوف لوگ تو مر بھی سکتے
ہیں ''
تو اُس نے ٹھمکا لگا کر اور تالی بجا کر کہا کہ
''تے مرجانیا فر مردا کیوں
نئیں ''
اور ہم بغیر دائیں بائیں
دیکھے 220کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے روڈ کراس گئے۔ دراَصل ہم اوور کونفیڈینس میں مارے گئے تھے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
جب
ہم 'تلامیذالرحمٰن '' کے کلئے سے عامل نہ بن پائے تو شیدے پُونڈ کو اُستاد کر لیا ۔
ان حضرت نے اوّل تو ' پُونڈی' اور'فلرٹنگ'
کے مابین فرق سمجھایا اور جب ہمیں سمجھ نہ
آیا تو شہزاد احمد کا شعر بطور حوالہ پیش کیا:
آج پھر پہلی ملاقات سے
کروں آغاز
آج پھر دُور سے ہی دیکھ
کے آؤں اُس کو
ہم
نے پھربھی جب کچھ نہ سمجھ آنے کا بہانہ کیا تو اُستاد ِ محترم چڑ گئے اورترپ کا
پتہ پھینک بیٹھے۔
مرنے کے بعد بھی اُسے دیکھنے کی چاہ میں
آنکھیں کسی کو دے گیا
تاکید کر گیا
یہ
شعر پڑھنا تھا کہ اُستادکو حال آگیا۔ باربار شعر پڑھتے تھے، کانوں
کو ہاتھ لگاتے تھے اور ہمیں مخاطب
کرکے کہتے تھے کہ
''حضرت ِشاعر تو بے حد پُونڈ واقع ہوئے ہیں''
اس
کے بعدانہوں نے رِقت آمیز لہجے میں '
فلرٹنگ 'کے نقصانات اور' پُونڈی' کے خالص مشرقی روایت ہونے پرایک طویل لیکچر دیا۔ پھر
دھیمی آواز میں کئی اسباق سکھائے ۔ پہلا
قاعدہ یہ تھا کہ سب سے پہلے جنس مخالف کے ارکانِ ثلاثہ کا جائزہ لیں ۔ اب ہم نے ارکانِ ثلاثہ کی جستجو کی تو 'Figure' پر ختم ہوئی۔ نجانے یہ اُردو والے اتنی خوب صورت چیزوں کو ایسے کیسے بگاڑ لیتے ہیں ۔ بہرحال شیدے استاد نے ہی ہم پہ یہ حقیقت وَاکی کہ
ٹوٹا ،پیس، بم اور بچی میں کیا فرق ہے۔ اور یہ گرہ بھی کھولی کہ آنٹی نام کی آفت کیا
ہوتی ہے۔ اُنہوں نے لٹریچر سے چنددِلکش اقوال بھی ہماری نذر کئے۔ مثلاََ
''تاڑنا ہمارا قومی کھیل ہے''
''عمر میں رکھا ہی کیا ہے''
''جہاں تاڑ،
وہیں تاڑ''
''خوب صورتی تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہے''
''پُونڈ اپنی چھترول کاخود ذمہ
دار ہے''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اُستاد
محترم اشارہ بازی کے سخت خلاف تھے ۔ کہتے
تھے کہ
''اشارہ کرنے والے کا منہ
کالا''
ہم نے ایک دفعہ وجہ پوچھی تو
سسک اُٹھے ۔ اپنے ماتھے پر زخم کے نشان کی طرف اشارہ کیا اور ایک ضرب مثل شعر
ہمارے گوش گزار کیا۔ اس کے بعد ہم کچھ نہ
پوچھ سکے۔ شعر تھاکہ
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر
رکھتے ہیں
انہوں نے ہمیں
طفل مکتب سمجھتے ہوئے مال روڈ کے علاوہ بھی کئی پُونڈی پوائنٹس سے آگاہ کیا
جن میں شاپنگ مال ، میوزک کنسرٹس، کیفے
ٹیریاز، لائبریریاں اوربینک شامل تھے۔ انہوں نے ہمیں
دورانِ ہنگامہ مکھن میں سے بال کی
طرح نکلنے کے گر سکھائے۔ یہ بھی بتایا کہ
'' کوئی پُونڈ کسی پُونڈ کا سگا نہیں ہوتا''
اور یہ بھی کہ اگر کسی 'پُونڈ'
کی چھترول ہوتی دیکھیں تو 'جماعتی تنظیموں
'کے ساتھ مل کر اُس پر دو چار ہاتھ صاف کرنے میں
کوئی مضائقہ نہیں ۔
ہمیں
اچھی طرح یاد ہے کہ اُستاد کے گھر والوں
نے بنا پوچھے ہی اُن کا رشتہ طے کردیا تھا۔ ہونے والی ' اُستانی محترمہ'
غالباََ اُن کی پھپھو کی بیٹی تھیں ۔ لاہور چھوڑتے وقت استاد مضطرب ہوئے پھرتے تھے ۔ آخری
بار مجھ سے مصافحہ کرنے سے قبل انہوں نے
غالب کو یاد کیا ،گرلز ہاسٹل کی طرف دیکھا
اور کہنے لگے کہ
''قسمت میں ہے 'پُونڈی' کی
تمنا کوئی دِن اور''
اور پھرجلدی سے آنکھیں پونچھ،
پلٹ کر رکشے میں بیٹھ گئے۔ رکشہ چلنے لگا تو انہوں نے باآواز ِبلند ایک شعر کہا جو 'پُونڈی مافیا ' کا قومی ترانہ کہے جانے کے
لائق ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ
یہ جو لاہور سے محبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے
یہ بھی
پڑھیے:
1 تبصرے
Wah wa!
جواب دیںحذف کریںWhat a style! Superb!!!