سنتے ہو کیاکہتے ہیں یہاں لوگ
اب کے فصیلوں پہ دِیئے جلاتا ہے یاں
کون؟
کہ آخری منزلوں کی اونچی منڈیروں پہ
دِئیے سے جلانا کسی کی خاطر
دِل میں یادوں کے اِک جمگھٹے میں
کسی اِک کا چہرا سنبھالے رکھنا
ایک ہی خواب میں غوطہ زن
ایک ہی مہ رُو ہو بس شب وروز
لیکن نیا ہے زمانہ ،نئے طور
گزرے دِئیے اور فصیلوں کے وہ دَور
بس اِک یہی میں صدا سنتاہوں اپنے ہر
سُو
فصیلوں پہ اب کے دِئیے یاں جلاتا نہیں
کوئی
پر ہم تو ٹھہرے سدا کے روایت شکن
سو، نئی ایک اب رسم ایجاد کرتے ہیں
اِن پلکوں کی ہی فصیلوں پہ
اشکوں کا ڈالے تازہ تیل
تن من کو سلگائے
تیری یادوں کے دِئیے سے جلائے
تجھے اب تلک یادکرتے ہیں
0 تبصرے