Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

لاحاصل

 
La-Hasil, Asad, Asad Mahmood, Urdu, Columns, Urdu Columns, Social,

غالبؔ کا معاملہ اور تھا جبھی وہ منزل پہ پہنچ کر بھی رستے کی یادوں  میں  اُلجھے رہے۔ انہیں  روزِ قیامت بھی آدم کا جنت سے نکالا جانایاد آتا رہا اوروہ یہی کہتے رہے کہ:

دَم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر تیراوقتِ سفر یاد آیا

 لیکن میرا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ میری آنکھ کُھلی تو میں  پھر وہیں  کھڑا تھا۔ وہی خواب تھے۔ وہی پتھریلے رستے تھے ۔ وہی تشنہ کام موضوع تھے اور وہی زہریلی تعبیریں تھیں ۔میں  نے خود کو پھر وہیں  پایا جہاں  سے سفر شروع کیا تھا۔

کوئی سفر ایسابھی دشوار ہوتا ہے کیا؟ کہ جہاں  پہ ذراآپ کی توجہ بٹّے،آپ راہ کا اِدراک تک کھو بیٹھیں ؟ اور جونہی لاشعور میں  چند لمحے،محض چند ہی لمحے توقف کرنے کے بعد شعور و آگہی کی دنیا میں  واپس آئیں ،منزل کا احساس تک باقی نہ رہے؟ ذرا دیر آنکھ جو جھپکیں  تو راستے کے تمام سنگِ میل پھر سے راستے کا پہلا پتھر بن جائیں ؟ آپ کے پیچھے کوئی راہ رہے اور نہ ہی آگے کوئی نشان؟ جس راہ کو بھی اختیار کریں  وہ الف لیلوی داستانوں  کی بھُول بھلیّوں  کی طرح آپ کو پھر سے وہیں  پہنچا دے ،جہاں  سے آپ نے آغازِ سفر کیا تھا؟ آپ لمحہ بہ لمحہ اور پہلو بہ پہلوکسی اَن دیکھے ،اَن چھوئے سِحر میں  گِھرے جارہے ہوں....؟

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

میرا موضوع وہی تھا ۔ انسان کی تلاش،انسان کی کھوج، انسان کی جستجو۔ اور اس منزل کی راہ کا یہ نیاپڑا تھا،جس میں  مجھ پہ ایک نیا انکشاف ہوا ۔یہ انکشاف بھی جان لیوا حد تک خوفناک تھا۔ یہ احساس خودی یا اپنے ہونے کا احساس نہیں  تھا۔ یہ احساسِ بے خودی تھا،۔ اپنے نہ ہونے کا انکشاف،کچھ نہ ہونے کی آگہی!

وہ میرا یونیورسٹی کلاس فیلو تھا۔اڑھائی برس قبل یونیورسٹی میں  اس انجینئرنگ کے شعبے میں  وہ ہمارے ساتھ داخل ہوا تھا۔پڑھائی میں  بہت اچھا نہ ہونے کے باوجود وہ واجبی سے کافی بہتر تھا۔نصابی سرگرمیوں  کے ساتھ ساتھ وہ ہم نصابی سرگرمیوں  کا بھی پُر جوش حصہ ہوا کرتا تھا....

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اور پھر ایک دن وہ کلاس میں  نہیں  آیا۔ اسلامیات کالیکچر جاری تھا کہ اس کے ہاسٹل میٹس(Hostel Mates) کو موبائل فون پہ کوئی پیغام ملااور انہوں  نے پروفیسر صاحب سے یہ کہہ کر کلاس سے جانے کی اجازت مانگی کہ ہمارے ایک کلاس فیلو کی حالت خراب ہے ۔ اُسے ہسپتال لے کر جانا ہے۔ پروفیسر صاحب نے اجازت دے دی۔اگلے دن پتہ چلا کہ اُسے گردوں  کا کوئی مسئلہ ہے اور وہ جناح ہسپتال میں  ایڈمٹ(Admit)ہے ۔ڈیڑھ دوہفتے کے قریب وہ اسی ہسپتال میں  داخل رہا ۔اس دوران میں  اپنے دوستوں  کے ہمراہ میں  نے بھی ایک دفعہ جاکر اُس کی عیادت کرناچاہی لیکن وہ ICU میں  تھا۔اس سے ملاقات ممکن نہ تھی ۔ سو،جناح ہسپتال کے ICUکے سامنے برآمدے میں  زمین پہ بستر بچھائے رہائش پذیر اس کے خاندان کو تسلی دینے کے بعدہم لوٹ آئے۔ڈاکٹروں  کے مطابق وہ تیزی سے رُو بہ صحت تھا ۔اس کے اہلِ خانہ بھی پُرامیدتھے کہ وہ بہت جلد ڈسچارج ہو جائے گا لیکن کچھ دن بعد نمازِعشاءکے بعد کاعمل تھاکہ ایک دوست سے معلوم پڑا کہ اس کاا نتقال ہو گیا ہے۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ہم کئی دوست فوراََ ہسپتال پہنچے تھے ،اُسے دیکھ کر کون کہہ سکتا تھا کہ وہ اب اس دنیا میں  نہیں  رہا تھا۔ بَھلاکون کہہ سکتا تھا کہ وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگیا تھا۔وہ سڑیچر پہ ایسی پُر سکون نیند سورہا تھا کہ سب یوں  دَم سادھے کھڑے تھے کہ جیسے ذرا شور ہوا تو اس کی آنکھ کُھل جائے گی....

اس کی وفات پہ میں  نے زمانے کے کئی چہرے دیکھے۔کئی طالب علم اس خبر کو سنتے ہی جناح ہسپتال کو بھاگے اور کچھ نے تو یہاں  تک کہہ دیا کہ اب وہاں  کیوں  جائیں ،اُسے تو اہلِ خانہ گھر لے جارہے ہوں  گے۔تقریباََ آدھی کلاس جو ہسپتال میں  موجود تھی ،ان میں  سے کئی طالب علموں  نے اس کے لیے یونیورسٹی وین کا بندوبست کرنا چاہا اوریہ بھی کوشش کی کہ یونیورسٹی کی کو ئی بس الاٹ ہو جائے تاکہ تمام کلاس فیلو اس کے جنازے میں  شریک ہو سکیں  لیکن یونیورسٹی میں  چھٹیاں  ہونے کے سبب کچھ بات نہ بن سکی ۔اس کی باوجود سات سے آٹھ لڑکے اس کے جنازے میں  شرکت کے لیے گئے ....

چند دن بعد ،محض چند ہی دنوں  بعد ہم سارے اپنی اپنی زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔ ہم اس کے بغیر بھی تمام سرگرمیوں  میں  اسی طرح حصہ لینے لگے جیسے پہلے،اس کے ساتھ ،اس کی موجودگی میں  لیا کرتے تھےاور یہیں  پہ مجھے اُس تلخ حقیقت کا اِدراک ہوا کہ ہماری ساری محبتیں ، ساری چاہتیں اور سارے رشتے صرف اس وقت تک ہیں  جب تک ہم زندہ ہیں ۔اِدھر روح نے جسم کا ساتھ چھوڑا اور اُدھر ہم بے وقعت ہوگئے ،ہم نے لحد تک کاسفر کیا اور ساتھی یار سب اپنی اپنی زندگی میں  لوٹ گئے ۔ پھر ہم صرف سال کے سال برسی پہ یاد کیے جانے کے قابل اور قبر پہ دیئے جلائے جانے کے قابل رہ گئے....

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

یہ حقیقت میرے وجود پہ اس بُری طرح سے آشکار ہوئی کہ میں  گھبرا گیااور میری نظر اپنے اندر لگے اَناءکے آئینے کے بجائے دنیا کے بے حس آئینے پہ جاپڑی ۔ مجھے یوں  لگا کہ جیسے میں  کسی مسلسل سفر کرتے ہوئے خانہ بدوشوں  کے قافلے میں  شامل آخری خچرکے قدموں  کے نشانوں  کی مثل ہوں ۔ جس کی اپنی کوئی علیحدہ کوئی وقعت ،کوئی حیثیت ،کوئی انفرادیت اور کوئی پہچان نہیں  ہوتی۔ وہ محض ایک ہجوم کے قدموں  کا نشان ہوتا ہے ۔ایسے میں  باباغلام فرید کی مدھر آواز سنائی دی تھی ،جو نجانے کب سے کہے جارہے تھے کہ

ویکھ فریداؔ! مٹی کُھلی ،مٹی اُتے مٹی ڈُھلی

مٹی ہَسّے،مٹی رووئے،اَنت مٹی دامٹی ہووے

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے