اس
دنیا میں جہاں بہت سی اچھائیاں پائی جاتی ہیں ۔ وہیں فیس بک نام کی ایک چیز بھی موجود ہے۔اگر آپ اس
'انکشاف' سے واقف نہیں تھے تو اب بھی
آشنائی کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے
آپ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اور اگر آپ
'خدانخواستہ'اس سے واقف ہیں تو بھی کوئی
فائدہ نہیں کیونکہ تازہ اطلاعات کے مطابق
جلدہی یہ حکومتی پابندی کا شکارہونے والی ہے(کالم پرانا ہے،اب ایسا کوئی خطرہ نہیں
)۔بہرحال ' ابھی ہمارا موضوع یہ پابندی
نہیں ۔کیونکہ برائی اوراچھائی کا چولی
دامن کا ساتھ ہے۔
یہاں
برے لوگوں کے ساتھ Creativeلوگ
ہمیشہ سے موجود تھے ۔ حد درجے کی فی البدیہہ جگتیں بھی اب اسٹیج ڈراموں میں نہیں
بلکہ فیس بک کے کمنٹس میں ملتی ہیں ۔یہ روزمرہ واقعات، ہلکی پھلکی نوک
جھوک بلکہ کتھارسس کے لیے بھی بہترین جگہ ہے۔ پچھلے دِنوں ایک طویل عرصے کے بعد کوئی ایک آدھ گھنٹہ فیس بک
پر گزارنے کا موقع ملا۔ جیسے بازار کا چکر لگاؤ تو بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دیتی ہیں ایسے ہی یہاں بھی طرح طرح کی دُکانیں دکھائی دیتی ہیں ۔ہم نے اس چند لمحات کی یاترا
میں کیا کیا دیکھا 'بس کچھ نہ پوچھیے۔
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
ہم
جلدی جلدی میں پوسٹس پر نظر دوڑاتے ہوئے
گزر رہے کہ ایک دوست کی پوسٹ نے توجہ کھینچی۔ اُس نے ایک عمدہ قطعہ لکھ رکھا تھا:
اس شہر میں کتنے چہرے تھے
کچھ یاد نہیں سب بھول گئے
ایک شخص کتابوں جیسا تھا
وہ شخص زبانی یادہوا
ابھی
ہم یہ قطعہ پڑھ کر فارغ بھی نہیں ہوئے تھے
کہ اس پر کسی ستم ظریف کا کمنٹ آگیا۔ ظالم نے لکھا کہ
''اوراگلے
دن امتحان میں وہ شخص ہم کو بھول گیا''
چند
لمحات کے توقف کے بعد کسی سنجیدہ تخلیق کار کا ذہن جاگا۔اس نے ایک شعر کے ساتھ یوں
بزم میں شرکت کی۔
میں نے اِک شخص کے تعاقب میں
خاک چھانی ہے اپنے اندر
کی
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
ایک
فزکس کے لیکچرر دوست کی وال پر نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے لوگوں کو فزکس سے بدظن کرنے کا بیڑا اُٹھا رکھا ہے۔ کم
از کم ان کی پوسٹس سے تو ایسا ہی لگتا تھا۔وہ فزکس کے خشک انکشافات کو بمع ان کے
موجدوں کے عوام تک پہنچا رہے تھے لیکن
کچھ' من چلے' یہاں بھی خوبصورت جوابات سے
ماحول کو خوشگوار بنائے ہوئے تھے۔
مثال کے طور پر انہوں نے 14مارچ کو آئین سٹائن کا برتھ ڈے بتاتے ہوئے
لکھاکہ
''اس شخص کو سالگرہ مبارک جس کے نظریہ ٔ اضافت
نے پوری دنیا کو بدل دیا''
اس
پر ترنت ہی ایک کمنٹ آیا کہ
''آہو،
اے سارا سیاپا اوہدا ہی پایا ہویا اے''
(ہاں
جی ، سارا سیاپا اُسی نے شروع کیا تھا)
ذرا
آگے بڑھے تو ایک اور پوسٹ پہ کسی صاحب نے ایک اخبار کا تراشا شیئر کررکھاتھا ۔جس
پر لکھا تھاکہ
سول
ہسپتال گوجرہ کا کارنامہ ، عیادت کیلئے آئے بزرگ کا آپریشن کردیا۔ اور خبر کی
تفصیل میں درج تھا کہ نظام دین ولد صوبہ
کی آنکھ کا آپریشن کیا جاناتھا لیکن نظام دین ولد منگل ہتھے ہسپتال انتظامیہ چڑھ
گیا۔ایک تصویر میں دونوں نظام دین حضرات
انٹرویو دیتے ہوئے بھی دکھائے گئے تھے۔ اپنے عوام کی جذباتی طبیعت کے پیش نظر یہاں
ہم نے کمنٹس پڑھنے سے گریز کیا۔
یہ بھی
پڑھیے:
واپس
پلٹے کو فزکس کے لیکچرر غالباََ گالیاں کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوئے تھے جبھی انہوں نے کچھ دیر بعد Warner
Heisenbergکی ایک پوسٹ مندرجہ ذیل موشگافی کے ساتھ
وال پر چپکائی کہ
''
جرمن سائنسدان جس نے کہا کہ اگر پارٹیکل
کی پوزیشن جس قدر درست طور پر معلوم کی جائے گی اس کا مومینٹم اتنا ہی مبہم ہوتا
جائے گا''
اور
ساتھ ہی چمچہ گیری بھی کی کہ
''یہ غالباََ آئن سٹائن کے نظریہ ٔ اضافت کے بعد
فزکس کی سب سے اہم تلاش تھی''
کسی درویش کے یہ پوسٹ پڑھنے کی دیر تھی ۔ اُس نے
کھٹ سے Heisenbergکی
ساری بڑائی اُن کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ اُس
نے لکھا کہ
''بندہ
ویسے کوئی دیسی تھا سیدھا سادا ۔کہہ دیا کہ بھئی اِک ویلے وِچ اِکو کم ای ہو سکدا
اے''
(یعنی کوئی سیدھا سادہ دیسی بندہ تھا اسی لیے اس کہہ دیاکہ بھئی ایک وقت میں ایک کام ہی ہوسکتا ہے)
ہم
فیس بک بند کرنے لگے تو ایک اور پوسٹ پر نظر پڑی ۔ ایک حضرت نے فیس بک پر پابندی
کے ضمن میں پیدا ہونے والی صورتحال پر
دلچسپ مشاہدہ درج کررکھا تھا۔ اس کے وال پوسٹ پر درج تھا کہ
''فیس بک بند ہونے کی خبر پر کچھ یار لوگوں کے دِل کی مراد بن آئی اور وہ فیس بکی لڑکیوں سے فون نمبر ایکسچینج کرتے پائے گئے ''
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے