خواہش
ناکام کا سفر
منزل سے دلفریب ہے رستہ تلاش
کا
جاری رہے گا خواہش ناکام کا
سفر
حاسدین
کا کہنا ہے کہ وہ سال بہت برا تھا کہ ہزاروں لوگ سیلاب کی نذر ہو گئے تھے ۔گو میں نے لوگوں کو سیلابی پانی کی سواری کرتے نہیں دیکھا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ سال اتنا بھی برا
نہیں تھا کیونکہ اسی سال کے آخر میں مابدولت کی دنیا میں تشریف آوری ہوئی تھی۔(البتہ جب میں اپنے کلاس فیلوز میں سے اکثر کی تاریخ پیدائش بھی اسی سال کی دیکھتا ہوں
تو حاسدین کے کہے پہ کچھ کچھ اعتبار آنے لگتا
ہے)۔بہرحال یہ 15نومبر 1992ء کی ایک سنہری
صبح تھی جب مابدولت نے اس جہان ِ فانی میں
قدم خوشہ فرمایا۔ابتدائی تعلیم تمام بڑے لوگوں
کی طرح مقامی علاقے چکوال کے ایک قصبے ملہال
مغلاں سے حاصل کی ۔اس کے بعد بدنام زمانہ سائنس
کالج کلر کہار میں جھونک دیئے گئے۔کلر کہار
میں دو سالہ 'قید و بند'کی صعوبتوں کا صلہ ملا تو فقط اِتنا کہ' ایف ایس سی' میں حاصل
شدہ نمبروں کے ساتھ سابقے کے طور پر امتیازی
کا اضافہ ہوگیا۔یوای ٹی کے رَچنا کیمپس میں چند ماہ تک 'کمپیوٹرسائنس 'پڑھتے اور سینئرز
کی 'ریگنگ'سے بچتے رہے۔'فولنگ 'جب ختم ہونے کے قریب پہنچی اور کیمپس سے ملحق 'جوڑاسیاں
'کی فضائیں راس آنے لگیں تو پنجاب یونیورسٹی
سے بلاوا موصول ہوا جس پہ ازحد انکساری سے تحریر تھا کہ 'جناب کے انتظار میں جامعہ کے دروبام سوکھے جارہے ہیں ۔آئیے اور اس کی رونقوں کو تاراج ہونے سے بچائیے'۔ہماری 'میزبان نواز' طبیعت
کے بارے میں عطاتراب نے کہہ رکھا ہے کہ
یوں محبت سے نہ ہم خانہ بدوشوں کو بلا
اتنے سادہ ہیں کہ گھر بار اُٹھا لائیں گے
رَچنا
کے پہلے مڈٹرم کے امتحانات کو خاطر میں نہ
لاتے ہوئے ہم پنجاب یونیورسٹی جاپہنچے۔اُردو ادب کا ذوق پرانا تھا لیکن یونیورسٹی کے
پہلے سال میں اَن گنت لوگوں کے سمندر میں تنہائی کا ساتھ مل گیا تو شاعری کا رُخ کیا اور
'علم عروض 'جانے بنا ہی غزلوں پہ غزلیں لکھ ماریں ۔دوسرے سال میں ابھی یونیورسٹی لائبریری کے 'شعبہ علوم شرقیہ 'کا
حشر نشر کرنے میں مصروف تھے کہ حکومت نے لیپ
ٹاپ کا حق دار قرار دیا۔ جس کے بعد لائبریری کی جان چھوٹی اور بلاگنگ کی اوکھلی میں سر دے دیا۔تیسرے سال میں علم عروض کی سدھ بدھ حاصل کرنا شروع کی ۔ علم عروض
تو پا لیا لیکن 'شاعری نام تھا جس کا ،گئی تیمور کے گھرانے سے '۔شاعری سے جی اُچاٹ
کی وجہ عروض کی اصطلاحات کو قرار دیتے ہوئے ایک مرتبہ سنہری قول بھی سرزد ہوگیا ۔کہنا
یہ تھا کہ 'علم عروض شاعری روکنے
کی اک بھونڈی کوشش کا نام ہے'۔
سال
دوم کے دوران میں باقاعدہ اور فی سبیل اللہ
قسم کی کالم نگاری کا آغاز بھی کیا (اس فی سبیل اللہ میں زیادہ ہاتھ اخبار کے ایڈیٹرز کا تھا)۔یونیورسٹی انتظامیہ
کی پھرتیوں سے چار سالہ ڈگری ساڑھے چار سال
میں مکمل کی ۔چونکہ انجینئرنگ کررکھی تھی لہٰذا یونیورسٹی میں ہی ڈیلی ویجز 'کلرک'(سکریسی آفیسر)کی ایک نوکری مل
گئی ۔چند ماہ سرتوڑ محنت کے بعد جب سب عظمت کے قائل ہونے لگے تو جاب چھوڑ کر 'آرمی
کمیشن'کے لیے کوہاٹ کا رُخ کیا ۔یہ ہماری دوسری بونگی تھی ۔ایف ایس سی کے بعد بھی اسی
طرح کی ایک حرکت کا ارتکاب پہلے بھی کرچکے تھے۔نتیجہ اس دفعہ بھی ویسا ہی رہا ۔ پانچویں
دِن 'شارٹ لسٹ 'ہوئے اور بغیر کسی 'ری ٹاسکنگ'کے
نااہل (Not Recommended)قرار
دئیے گئے ۔دو ماہ مکمل بے روزگار رہنے کے بعد ایک مقامی پرائیویٹ کالج میں کیمسٹری پڑھانے لگے ۔کیمسٹری پڑھاتے ہوئے سات آٹھ
ماہ ہوئے تھے کہ ہماری ایمانداری اوربے زبانی سے متاثر ہوکر 'پروموشن 'ہوگئی ۔ یعنی
تنخواہ کم کرکے ساتھ میں 'جونیئر'کلاسز کی
ذمہ داری بھی دے دی گی۔ابھی ہم اس نئے لطیفے سے کما حقہ لطف اندوز بھی نہ ہوئے تھے
کہ 'پنجاب ایجوکیٹرز'میں سکیل 09پر بھرتی ہوگئے۔ایسی
'ترقی'قسمت والوں میں بھی کم کم کو نصیب ہوا کرتی ہے۔سکول میں جاتے ہی بچوں کے ساتھ بچے بن گئے تاہم لیڈی ٹیچرز سے وہ پیار حاصل
نہ کر سکے جس کے بچے حق دار ہوا کرتے ہیں ۔
یہاں
بھی ایمانداری کا انعام 'پندرہ روزہ بے دخلی'کی
صورت میں ملا ۔تاہم ان دِنوں میں ہم نے
احتجاج کے طور پر بی ایڈ کر لیا ۔سکول انتظامیہ احتجاج کی تاب نہ لاتے ہوئے ہمارے سامنے
سر تسلیم خم کرنا ہی چاہ رہی تھی کہ ہم نے سکیل 14کا امتحان بھی پاس کرلیا اور چونکہ' انجینئر'تھے اس لیے سلیکٹ بھی ہوگئے ۔اب وی لاگنگ کے میدان میں گھوڑے دوڑانے لگے ہیں
۔کالم نگاری شاعری
اور بلاگنگ پرانی شراب کی طرح ہوتے جارہے ہیں ۔
یہ
اب تک کی مختصر سی رُوداد ہے ۔یہ اختصار اس لیے کہ اس میں محبتیں ہیں
اور نہ ہی لوگوں کا ذکر ۔اور داستانیں کہانیاں آپ بیتیاں اور جگ بیتیاں تو انہی چیزوں سے جنم لیتی ہے۔ یہی دعا ہے کہ انور مسعود کی یہ
خواہش ہمارے حق میں بھی پوری ہو ۔
پھرملاقات کسی وقت مفصل ہوگی
یہ ملاقات ملاقات کا دیباچہ
ہے
Social Plugin