12ویں
روزے کی افطاری ہوئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ رات
کاہلکا آبنوسی رنگ دھیرے دھیرے گہرا آبنوسی ہوتا جارہا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا دھیمی موسیقی کی طرح چل رہی تھی
لیکن رگ و پے میں کچھ اینٹھن سی در آئی
تھی۔ جسے موسم کی لطافت چاہ کر بھی دُور
نہیں کر پارہی تھی۔رات کے کھانے کے بعد
ٹی۔وی روم میں پنجاب یونیورسٹی کے پاکستان
سٹیل مِل انٹرن شپ پہ آئے ہوئے گروپوں کی
محفل جمی ہوئی تھی۔ دنیا جہان کے موضوعات زیرِ بحث تھے۔ شگفتہ موضوعات دھیرے دھیرے قدرے سنجیدہ ہونے لگے
تھے کہ ایسے میں ٹی ۔وی پہ رات کی خبریں آنا شروع ہوں گئیں جنہوں
نے مستقبل کے معماروں کے موضوعات اور لہجوں کو مزید تلخ کر دیا۔
خبروں
میں کوئی حکومتی ہرکارہ شور کر رہا تھاکہ اگر بجلی
کا شارٹ فال محض 2700میگا واٹ ہے تو پھر سِحر وافطارکے اوقات میں بے دریغ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی(حکومت میں ہوتے ہوئے وہ شور کیوں کر رہے تھے،اِس بات کی ہمیں بھی چنداں سمجھ نہیں آئی)۔ کمرے میں موجودایک حضرت دُور کی کوڑی لائے کہ حکومتی
رپورٹس کے مطابق بجلی کے ایک ارب یونٹس کی چوری ہو رہی ہے،اور اگر 10روپے فی یونٹ
کے حساب سے جائزہ لیا جائے تو قومی خزانے کو دس ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ،جبکہ
واپڈا کی ریکوری(Recovery) محض
90کروڑ روپے تک محدود ہے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
کراچی
سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ اپنے کسی عزیز کے ہاں مقیم تھے کہ اچانک میٹر چیکر آگیا۔ صاحب ِ خانہ
نے اپنے اہلِ خانہ میں سے کسی کو حکم دیا
کہ
”جاؤ اور ریگولیٹر کو 2نمبر پر کر دو“
حکم
کی تعمیل ہوتے ہی میٹر چلنا شروع ہو گیا اور جونہی میٹر چیکر واپس ہوا۔ انہوں نے
ریگولیٹر کو پھر 3پہ کر دیا جس سے بجلی تو
آتی رہی لیکن میٹر وہیں رُک گیا۔
ایک
اور دوست نے آگاہ کیا کہ ان کے کچھ عزیز جنوبی پنجاب کے کسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ان کا وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو وہ یہ دیکھ کر دم بخود رہ
گئے کہ وہ پورا گاؤں بجلی کا بِل ادا نہیں
کر رہا تھا، اور دھونس اور دھاندلی کی
انتہا یہ تھی کہ واپڈا کے کسی اہلکار کو وہاں داخلے
کی اجازت نہ تھی ۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
مندرجہ
بالا دو واقعات بجلی کی اربوں روپے کی
چوری کے دوننھے منّے نمونے ہیں ۔ یہ اُس طویل فلم کا محض ٹریلر ہیں جس کی اِس وقت ملک کے طول و عرض میں بھرپور نمائش جاری ہے۔ اَن گنت فیکٹریاں اور کارخانے کروڑوں کے نادہندہ ہیں ،اور اِس پہ طرہ یہ کہ لوڈشیڈنگ
کے خلاف ہر کوئی خود کو معصوم ثابت کرنے کے لیے سڑکوں پہ آکے ٹریفک کا نظام درہم برہم کیے جارہا ہے۔ سرکاری
اِملاک کو نذرِ آتش کرکے ”ثوابِ دارین“بھی برابر حاصل کر رہاہے۔ ہر طرف وہ اندھیر مچا ہواہے کہ الامان و الحفیظ ....
میڈیا
اطلاعات کے مطابق تقریباََ 50%بجلی کی چوری صوبہ خیبر پختون خواہ میں ہورہی ہے اور صوبے میں حکمران پارٹی کے انقلابی محض فیس بُک پہ ہی اپنے
صوبے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں ۔ حقیقی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی تیارنہیں ہے۔
باقی صوبوں میں کے عوام بھی اب حکمرانوں کے ”لُٹو تے پھُٹو“ والے اُصولِ زریں پہ پورے دِل و جان سے عمل کرنے لگے ہیں اور
حکومتی ادارے بھی اِس میں برابرکے شریک ہیں
کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اربوں روپے کی دھاندلی واپڈاکی ناک کے نیچے ہوتی رہی
اور وہ اِس سے قطعی طور پر بے خبر رہے، اَصل میں یہ سارا کام ”باہمی تعاون “ کے لازوال مقولے کا
مرہونِ منت ہے ۔
یہ بھی
پڑھیے:
بجلی
چوری کے ساتھ ساتھ گیس کی چوری بھی زوروں پر ہے ۔ چند دن قبل ہی گوجرانوالہ کے قریب دو
فیکٹریاں سیل کی گئیں جو اربوں روپے کی گیس چرارہی تھیں ۔ اس واقعہ پہ تبصرہ کرتے
ہوئے مشہور دانشور اور کالم نگار جناب حسن نثار نے بہت خوب جملہ کسا تھاکہ
”اربوں
روپے کی گیس چوری میں ملوث فیکٹریوں کے ذرا نام تو دیکھیں ،داتا پیپر فیکٹری اور ماشااﷲ گتہ فیکٹر“
ان
تمام واقعات کے بعد مجھے بھی اپنا بیان بدلنا پڑ رہا ہے۔ چند ہفتے قبل میں نے ایک کالم میں اپنے ملک کے عوام کے اجتماعی رویے پر کہا تھا کہ
”
ہم میں سے ہر کوئی اُس وقت تک معصوم ہے جب
تک کہ وہ بے اختیار ہے“
لیکن اب مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ میں غلط تھا،موجودہ صورتحال کے مطابق جملہ کچھ یوں ہونا چاہیے تھا
”ہم
میں سے ہر کوئی اُس وقت تک دودھ کا
دُھلاہے، جب تک اُسے موقع نہیں ملتا“....
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
0 تبصرے