براہِ
کرم کالم کے عنوان سے کسی مغالطے کو دِل میں
مت آنے دیں ۔یہ ''ادب'' احترام کے زمرے میں آنے والا نہیں
ہے ۔ ویسے بھی اس قسم کے کسی ادب سے موبائل کو کوئی
واسطہ نہیں ہے ۔آپ نے دیکھ رکھا ہوگا کہ
ہرموبائل فون بردار فون سننے سے پہلے ہی دوسرے کو ہیلو(بمعنی جہنمی) کہہ کر اپنی
''خیر سگالی'' کا اظہار کرتا ہے ۔تویہ ادب،دراصل لکھنے پڑھنے والا ادب ہے۔موبائل
فون آج کل کم و بیش ہر شخص کے پاس ہے اور میں
بھی اس ایجادسے قریباََ دس سال سے بہرہ مند ہو رہا ہوں ۔موبائل کے میرے
تصرف میں آنے سے پہلے بھی ہم دوست احباب
سے ان کا فون نمبر لینا بلکہ لکھنا ضروری خیال کر تے تھے ۔ہاں ،اب البتہ نمبر اپنے
موبائل میں محفوظ کر کے جوابی مس کال دینا
ضروری خیال کیا جاتاہے تاکہ ''آگ''دونوں
سمت برابر لگے!
بہرِ
طور، ہمارے دوست احباب کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ان میں ہر قسم کے نمونے موجود ہیں جن سے کسی بھی بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔کال کے
بعد موبائل کی دوسری اہم پیش کش میسجنگ سروس(SMS) ہے ۔میرا کافی عرصے سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ کوئی بھی اچھا (ادبی
قسم کا)میسج ملے تو اُسے ڈیلیٹ نہیں کرتا
بلکہ خود بھی کسی کو شاعری یا لطیفہ بھیجوں
تو اپنے پاس بھی محفوظ کر لیتا ہوں
تاکہ''سند ''رہے اور بوقت ِ ضرورت کام آئے۔سو، کافی طویل عرصے سے میرے
موبائل میں محفوظ ادب پارے آپ کی نذرہیں
۔ملاحظہ کریں اور حظ اُٹھائیں (البتہ شعروں
کے بروزن ہونے کے ضمانت ہم نہیں دے سکتے ،ہاں ، بھیجنے والا کا حوالہ
حاضرہے)
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
٭سب سے پہلا میسج گوجرانوالہ سے ایک دوست کا ہے جو رومانوی
جذبوں کے عکاس ایک خوبصورت شعرپر مشتمل
ہے:
لوٹ آئے ہیں نگاہوں
میں پرانے چہرے
پھر گئے وقت کی زنجیر ہلا
دی کس نے
٭یہ میسج گلگت کے ایک یونیورسٹی فیلو کا ہے ،شعر ہے اور غالباََ
غالب کا ہے:
پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی
خبرکو میں
٭لیجیے، ایک مزیدار میسج آگیا:
چند
عمومی صورت ِ احوال پر کچھ بے وقوفانہ سوالات اور ان کے ممکنہ جوابات؛
1۔بس میں کوئی موٹاسا شخص
آکے آپ کے پاؤں پہ پاؤں رکھ دیتاہے اورپھر معصومیت سے دریافت کرتا ہے:
''ارے
بیٹا!چوٹ تو نہیں آئی''
''نہیں انکل!بہت مزا آیا۔ یہ رہامیرادوسرا پاؤں
،اپنادوسرا پاؤں اس پہ رکھیں ''
2۔آدھی
رات کو کوئی فون کر کے نیند سے جگانے کے بعد فکرآمیزی سے پوچھتا ہے:
''سو
رہے تھے کیا؟''
''نہیں حضور!میں
تو لیٹ کر مرنے کی پریکٹس کر رہاتھا''
3۔جب
کوئی لینڈ لائن فون پہ کال کرتاہے اور پھر استفسار کرتا ہے کہ
''کہاں پہ ہویار؟''
''جناب!میں مارکیٹ میں
ہوں، فون بھی گلے میں لٹکا کے لے آیا ہوں ''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
٭اس کے بعد یہ ایک میسج میرے ایک کالج کے استادِ محترم کی جانب سے
آیا ہے ، باباغلام فرید کی ایک کافی ہے جو پنجابی میں ہے:
کجھ نین سوالی،کجھ نین
سوداگر،رَل نیناں پائیاں ہَٹیاں
کجھ نین ،نیناں دے سودے کردے،کجھ نین بھریندے چٹیاں
کجھ نین،نیناں نوں
زخمی کردے،کجھ نین کریندے پَٹیاں
غلام فریدا لڑنین
ونجن،اَساں ہور کی کرنیاں کَھٹیاں
٭اس سے اگلا میسج میرا اپنا ہے جومیں نے کئی احباب کو بھیجاتھا ۔ یہ عبدالحمیدعدم کی
ایک غزل کے تین اشعار ہیں :
طور پہ بھی گئے تھے ہم،آپ
کو ڈھونڈنے مگر
کثرت ِ احتیاط سے کام
خراب ہوگیا
دو ہی تو لفظ تھے فقط
دفترِ کائنات میں
عقل سوال بن گئی،عشق جواب
ہو گیا
چشمِ کرم توایک تھی،ظرف
کے اختلاف سے
کوئی درست ہوگیا،کوئی
خراب ہوگیا
موبائل
لٹریچر تو شیطان کی آنت ہے، یہ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے۔کالم محدودہے،سو،
فی الحال اتنے کوہی کافی جانیں ۔رہی میسجز کی بات تو وہ تو آتے رہیں گے اور جو مجھے اچھا لگے گا، میں محفوظ رکھنے کی کوشش کروں گااوربشرطِ زندگی آئندہ بھی کبھی کبھارپیشِ
خدمت کرتارہوں گا۔ہاں ! لگے ہاتھوں ایک دوست کی طرف سے بھیجا گیامحسن نقوی کا ایک
قطعہ سنتے جائیں :
وہ اَشک شامِ غریباں میں
بجھ گیا جس کو
خطِ مسافت ِ شب کا سراغ
ہونا تھا
تمہاری سوچ بھی آخر بہک
گئی محسن
تمہیں توشہر میں روشن دماغ ہونا تھا
آپ کے ذوقِ
نظر کی نذر:
0 تبصرے