Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

baba rehmtay, baba rehmtay k faislay, baba rehmtay k tareekhi faislay, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Humor & Jokes, Movie Reviews, Previews  & Listings, Sports Fan Sites & Blogs, Poetry, Political News & Media, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، بابا رحمتے، بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے، بابا رحمتے کے فیصلے، ڈیم فنڈ،

پروفیسرHastingsجانے کس دُھن میں گھومتا ہوا یہاں آنکلا تھا۔ اُس کا تعلق بلغاریہ سے تھا۔ وہ مجھے اچانک ہی ایک ریسٹورنٹ میں گھومتاہوا ملا تھا۔ ہم ایک دوسرے کو بالکل نہیں جانتے تھے لیکن 'زبانِ غیر' میں دسترس جان پہچان کا باعث بن گئی کیونکہ وہ جس ہوٹل میں موجود تھا ،وہاں کا تمام عملہ دو افراد پر مشتمل تھا۔ چاچااللہ دین اور شرفو دونوں ہی انگریزی جاننے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن Hastingsاُن کے دعوے سے متفق نہیں تھا۔ ایسے میں جب میں ہوٹل میں داخل ہوا تو اُس نے اُن دو 'انگریزی دانوں' سے جان چھڑانے کےلیےمیرا سہارا لیا۔

کھانا کھاتے ہوئے بات سے بات نکلی تو معلوم پڑا کہ وہ کامیڈین بھی ہے اور اسٹیج پر مزاحیہ ایکٹ کیا کرتا ہے۔ میں نے اُسے بتایا کہ ہمارے یہاں ایسے اداکار "بھانڈ" کہلاتے ہیں۔ وہ کنفیوز سا ہوگیا کہ ہم محض "جیمز بانڈ" کے لقب کے لیےمزاح اور ایکشن کو مکس کیوں کر رہے ہیں۔ اُس نے غالباََ مجھ پہ ایکشن اور مزاح کا فرق واضح کرنے کے لیے یہ بھی بتایا کہ بلغاریہ میں "ہیومر اینڈ سیٹائر ((Humor & Satire"نامی ایک باقاعدہ ادارہ موجود ہے ، جو طنزو مزاح کے فروغ کے فروغ کے لیے کام کر رہا ہے ۔ اُس نے یہ بھی پوچھا کہ پاکستان میں بھی کیا ایسا کچھ ہے ؟۔ میں نے کئی حوالوں سے اُسے قائل کرنا چاہا ۔ پر وہ کسی طرح مان کے نہ دیا۔ بالآخر مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ میں نے سامنے پڑے کچھ پرانے اخبارات میں سے اُسے عدلیہ کے مختلف کیسز میں دئیے گئے ریمارکس سنائے تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

میں نے 'رسپانس' آتا دیکھا تو اخبار منہ کے سامنے رکھے رکھے ہی ایک کہانی بھی گھڑ کر اُسے سنا دی۔ جس کے بعد وہ میرا باقاعدہ 'مرید' بننے کو تیار ہوگیا۔ آپ بھی کہانی ملاحظہ فرمائیں۔ بس یہ یاد رہے کہ اِس کتھا کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ سراسر اتفاق ہوگا ۔ میں نے بظاہر بغور اخبار دیکھتے ہوئے اُسے بتایا کہ

"ہمارے ہاں ایک بہت مخولیا بابا تھا۔ اُس کا نام رحمت خان تھا۔ پر اُس کی شروع سے ہی 'نون' اور 'نون غنے' سے نہیں بنتی تھی۔  سو، اُس نے اپنا نام 'رحمت خا' کرلیا۔ بعد میں بابے کے چند بد خواہوں نے اسے 'رحمت خواہ مخواہ' کر دیا۔ بہرحال،  بابا 'بچپن' میں ہی گاؤں کی پنچائت کا سربراہ ہو گیا تھا۔ اُس کے پاس ایک قلم ہوا کرتا تھا۔  بابا بولتا نہیں تھا، اُس کا قلم بولتا تھا۔ وہ ایسا ایسا فیصلہ کرتا کہ لوگ عش عش کر اُٹھتے ۔ کچھ منافق البتہ باتیں اُڑاتے رہتے تھے کہ یہ قلم نہیں بلکہ بابے کے پلنگ کے پاس رکھے ڈنڈے کا کمال ہے۔ بابے کی جوانی ڈھلنے لگی تو کچھ لوگوں نے اُس کے فیصلوں پر سرِعام تنقید شروع کر دی۔  فیصلوں کے نفاذ کے لیے اُسے بولنا پڑا کہ فیصلے میرے اپنے ہیں ۔ میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا ۔ لوگ بابے کو اِگنور کرنے لگے تو بابا 'لائم لائٹ ' کے چکر میں جگتیں کرنے لگا ۔ تاہم وہ اِس بات سے بھی چِڑ جاتا کہ کسی دوسرے نے اُسے جملہ کیوں لگایا ہے ۔ محققین کہتے ہیں کہ بولنے کے کچھ عرصے بعد ہی بابا مر گیا تھا۔ تاہم علاقے کے پٹواری کے بہی کھاتوں میں چند پھٹے ہوئے صفحات اب بھی بابا رحمتے کے تاریخی فیصلوں کے امین ہیں۔ بابارحمتے کا نام جن فیصلوں کی وجہ سے آج بھی اُن کی قبر پر 'موٹے کٹ والے مارکر' کے ساتھ لکھا ہوا ہے،وہ کچھ یوں تھے:

دِل چسپ ادبی ویڈیوز  یہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔

بابے کو جیسے کچھ حروف ناپسند تھے ۔ اُسے 'آ' بہت پسند تھا بلکہ وہ اپنے دوست عامر کو بھی 'آمر' ہی کہتا تھا۔ بابا اکثر ایک جزوقتی گانا اَلاپتے پایا جاتا۔

 "آمر بھیا آئیں گے۔ میٹھے آم لائیں گے"

 اسی 'آمر' کے خلاف ایک کیس چلاتو بابے نے محفوظ فیصلے میں لکھا کہ

 "آمر بھائی ڈرتاوَرتا کسی سے نئیں۔ پر لڑتا وَڑتابھی کسی سے نئیں"

  یہ فیصلہ جب منظر ِ عام پر آیا اور 'آمر' نے دھمکیاں دیں تو بابے نے فرمایا کہ

 "ماری عدالتیں جرنیلوں سے کم ہیں کَے؟"

ایک دفعہ ایک شکاری نے پنچائت کو مشکل میں ڈالنے کی کوشش میں سوال داغا کہ

 "خرگوش حلال ہے یا حرام؟"

 کوئی اور ہوتا تو تحقیق کے بے فیض کام پر لگ جاتا مگر آفرین ہے بابےکی دانش پر کہ بس ایک جملہ کہا اور کیس ختم۔  وہ سنہری جملہ تھاکہ

"خرگوش بھُناہوا ہو تو حلال ہے ورنہ نہیں"

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

میرے ندیمؔ

ایک اور مقدمے میں جرح زوروں پر تھی۔ وکیل نے مقرر کے انداز میں بابے سے سوال کیا کہ

"جج صاحب! اِس کیس کو سمجھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ دُونی کا پہاڑا۔  میں ، یہ عدالت اور میرا مدعی اب آپ سے ہی پوچھتے ہیں کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں"

 بابارحمتے نے ہڑبڑا کر وکیل کی طرف دیکھا اور پھر گویا کیس کا فیصلہ ہی کر ڈالا۔ بولے:

"تمہیں کتنے چاہیں؟"

جب لاپتہ افراد کے ایک کیس کی سماعت ہوئی بابے نے یہ بتا کر سب کو حیران کر دیا کہ کچھ علاقوں کی ہوا میں انسان حل پذیر ہے۔ اِس بات پر وہ تالیاں بجیں کہ خدا کی پناہ۔ بابے کے آخری شناختی کارڈ پر لکھی گئی شناختی علامات ان تالیوں کی گواہ تھیں۔ "

Hastingsاِس سکرپٹ پر ڈرامہ بنانے کا اِرادہ رکھتا ہے ۔ آج اگر بابا رحمتے زندہ ہوتے تو یقیناََ خوشی سے مر گئے ہوتے۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

2 تبصرے