Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

لکیر کے فقیر

 Urdu, Columns, Comics, Asad, Asad Mahmood, Urdu Columns, Urdu Columns by Asad Mahmood, Fun, Entertainment, Lakeer, line, Geo aur jeenay do, DivineRule

صحافت میں  آج کل ایک ”لکیر“کا بہت تذکرہ کیا جا رہا ہے ،ہمارا آج کا موضوع بھی وہی لکیرہے لیکن یہ ہر گز مت سمجھیئے کہ ہم لکیرکے فقیر  ہیں ۔دراصل یہ ایک ایسی جادوئی لکیرہے جس پر اگر قوم کا ہر فرد عمل پیرا ہو جائے تو یہ لکیرقوم کی تقدیر بدل کر اسے اقوامِ عالم کاپِیر بناسکتی ہے۔معاف کیجیئے گا مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کہانی سنا ہی دی جائے وگرنہ بقول کرنل محمد خان؛

"اگر ہمارے کچے فلسفے کا روڑا کسی پکے پروہت کے ماتھے پہ جالگا تو فساد کا اندیشہ ہے۔"

 واقعہ کچھ یوں  ہے کہ ایک استادِمحترم کمرہءِجماعت میں  بیٹھے بچوں  کو پڑھا رہے تھے ۔انہوں  نے تختہ ءِسیاہ پہ ایک لکیرکھینچی اور طلبہ سے مطالبہ کیا کہ

 ”ہے کوئی تم میں  جو اس لکیر کو چھوئے بنا چھوٹا کر دے“

بچے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔کچھ کو استاد کی ذہنی حالت پہ بھی شک گزرا۔کافی طویل کھسر پھسر کے بعد ایک ہونہار طالب علم نے تمام جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے استاد کو آگاہ کیا کہ

”جنابِ والا! بنا چھوئے تو اس لکیر کو ہر گز چھوٹا نہیں  کیا جاسکتا“

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

استادِمحترم مسکرا اُٹھے ۔انہوں  نے چاک ہاتھ میں  پکڑا اور اس لکیر کے پہلو میں  اس سے لمبائی میں  بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی اور جماعت کو بتایا کہ

”یہ دیکھو!میں  نے تو پہلے والی لکیر کو بناچھوئے چھوٹا کر دیا ہے“

تمام جماعت  نے حیرانی سے یہ 'کرتب 'دیکھا اور پھر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگی۔

 استادِمحترم نے مزید بتایا :

"بچو!ذرا غور کروتو اس لکیر کو بناچھوئے چھوٹا کرنے میں  ایک بھرپور اور خوشحال زندگی کا فلسفہ چھپا ہواہے"

 ”بھلا وہ کیسے جناب؟“

ہونہار طالب علم نے ایک بار پھر تمام جماعت کی نمائندگی کا حق ادا کیا۔

”وہ ایسے میرے بچو کہ اس سارے عمل سے ہمیں  یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم دوسروں  کی زندگی میں  رخنہ ڈالے بغیر ،ان کے مفادات کو تختہءِمشق بنائے بغیر بھی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ زندگی میں  اَوجِ کمال حاصل کیا جاسکتا ہے۔تمام طلبہ ”بُز اخفش “ کی طرح سر ہلانے لگے۔

مزے دار ادبی ویڈیوز اور  وی لاگز  کےلیےیہاں کلک کریں۔

 میری ناقص رائے میں  ایک کامیاب اور پُر اَمن معاشرے کے لیے اس سے بہتر کلیہ ،کامیابی کی کو ئی اور کلید نہیں ہوسکتی لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں  ایسا نہیں  ہوتا۔یہاں ہرکوئی دوسر ے کی ٹوہ میں  رہنے اور اس کے کام میں  رخنے ڈالنے کو فرضِ اَولین سمجھتا ہے۔ ہمارے یہاں  تو بعض لوگوں  کو کھانا اس وقت تک ہضم نہیں  ہوتاجب تک وہ کسی شخص سے متعلق چغلی یا غیبت کی ”پھَکی“نہ کھالیں ۔ہم کسی دوسرے کو نجانے کیوں  کامیابی کے زینے چڑھتا ہوانہیں  دیکھ سکتے اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں  کہ ہمیں  خود چاہے کوئی کامیابی ملے نہ ملے لیکن دوسرے شخص بھی ضرور اُوندھے منہ گرے۔صرف اس ،ایک دوسرے کی ٹانگیں  کھینچنے کے،رویے سے ہمارے معاشرے کو ناقابلِ یقین نقصان پہنچایا ہے اورابھی تک یہ سلسلہ ختم نہیں  ہوا۔اسی رویے کا عکاس ایک لطیفہ دیکھیئے:

یہ بھی پڑھیے:

عیّاریاں

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

 ایک شخص کی بیوی اس کے حاکمانہ رویے اور بے جا تنقید سے بے حد پریشان تھی۔دراصل ہوتا کچھ یوں  تھا کہ اگر خاتونِ خانہ، صاحبِ خانہ کے ناشتے کے لیے انڈہ اُبال کر رکھتیں  تو مجازیءِخدا کا یہ کہنا ہوتا کہ آج تو آملیٹ کھانے کاجی چاہ رہا تھااور اگلے دن جب ناشتے کی میز پہ آملیٹ ان کامنتظر ہوتا تو وہ اس بات پہ ناراض ہوتے کہ آج تو اُبلا ہوا انڈہ ہونا چاہیے تھا۔خاتونِ خانہ ان کے اس رویے سے بے حد جزبز ہوتیں ۔آخر کچھ دن اس معاملے پہ سر توڑ سوچنے کے بعد خاتون کے ذہن میں  ایک ایسا زبردست حل آگیا کہ جس پہ ان کا بے اختیار ”لڈیاں “ ڈالنے کا جی چاہا،لیکن انہوں  نے خود کو لڈیاں  ڈالنے سے باز رکھا اور آئیڈئیےپہ عمل درآمد کرنے کاسوچا۔ اگلی صبح موصوف ناشتے کی میز پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں  کہ آملیٹ اور اُبلا ہوا انڈہ دونوں  بیک وقت موجود ہیں ۔صاحبِ خانہ ”سَکتے“میں  آگئے اور کچھ دیر بعد جب ان کا سَکتہ ٹوٹا تو انہوں  نے غصے سے خاتونِ خانہ کوبلایا اور برس ہی تو پڑے:

”ارے نامعقول، احمق خاتون!جس انڈے کا آملیٹ بنانا تھا،اسے اُبال دیا اور جس کو اُبالناتھا،اس کا آملیٹ بنادیا!“

 آپ اگر کچھ دیرغور کریں  تو یہ عقدہ وَا ہوگا کہ تنقید برائے تنقید کا یہ رویہ اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ ہمارے اندر موجود ہے ،جس کا دن میں  کئی بار ہم استعمال کرنے سے بھی نہیں  چُوکتے۔

 قارئینِ محترم!اگر ہم اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ اور پُر اَمن بنانے کے متمنی ہیں تو ہمیں  اپنے دلوں  سے یہ کدُرتیں  ختم کرنا ہوں  گی،ہمیں  دوسروں  کی کامیابی کو دل سے تسلیم کرکے ان کے لیے ،ان کی صلاحیتوں  کے اعتراف میں  کھڑے ہوکر ان کو داد دینا ہوگی،ان کے تالیاں  بجانا ہوں  گی!ایک مفکر کا کہنا ہے کہ

”دنیا میں  تین طرح کے انسان پائے جاتے ہیں  ،ایک وہ جو دوسروں  کی ذات پہ تنقید کرتے ہیں  ، دوسرے وہ جودوسروں  کے خیالات و افکار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں  اور تیسرے وہ جو کسی پہ تنقید نہیں  کرتے ،کسی کا بُرا نہیں  چاہتے بلکہ خاموشی سے اپنی منزل کے حصول میں  مگن رہتے ہیں !“

مزید دِل چسپ بلاگ:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

اسپانسرڈ شاعرات

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے