Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

میرے ندیمؔ

Khuda karay, Allama Iqbal, Ghalib, Faiz, Zafar, Zafar Iqbal, Ahmed Nadeem Qasmi, Qasmi, Meray Nadeem, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، میرے ندیمؔ، احمد ندیم قاسمی،

”خدا کومانتا ہوں لیکن ہوں ترقی پسند“

احمد ندیمؔ قاسمیؒ کی وفات ،10جولائی 2010ءپر ایک سنڈے میگزین میں اُن کے ایک بہت پہلے لیے گئے انٹرویو کی یہ شہ سُرخی میرے ذہن سے چپک گئی ۔یہ میرا اُن سے پہلا تعارف تھا .مجھے اُن کا یہ عجیب جملہ کبھی نہیں بُھولاشاید یہ اُن کی تمام شخصیت کا عکاس تھا لیکن اُس وقت ،اُن کی وفات پر ،یہ بہت پہلے دیا گیا انٹرویو پڑھتے ہوئے مجھے اندازہ نہیں تھاکہ ہم کس گوہرِنایاب سے محروم ہو چکے ہیں:

کچھ غلط بھی تو نہیں تھا ،مِرا تنہا ہونا

آتش وآب کا ممکن نہیں یکجا ہونا

 

ایک نعمت بھی یہی،ایک قیامت بھی یہی

روح کا جاگنا اور آنکھ کا ،بینا ہونا

 

جو بُرائی تھی مِرے نام سے منسوب ہوئی

دوستو!کتنا بُرا تھا مِرا چھا ہونا

 

قعرِدریا میں بھی آنکلے گی ،سورج کی کرن

مجھ کو آتانہیں محرومِ تمنّا ہونا

 

شاعری روزِ ازل سے ہوئی تخلیق ندیمؔ

شعر سے کم نہیں انسان کا پیدا ہونا

”طلبہ!یہ بات ذہن میں رکھیں کہ احمد ندیم ؔقاسمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کی شاعری جذبات پر نہیں بلکہ عقل میں گُندھی ہوئی ہے۔آپ اُن کے اشعار کی تشریح میں اِس بات کو مدِّنظر رکھیں“

مندرجہ بالا غزل پڑھتے ہوئے ایف۔ایس ۔سی سالِ اوّل کے دوران میں یہ قاسمی صاحب سے میرا دوسرا تعارف تھا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

   پِھر اُن کی برسی یا ولادت پر اخبارات میں اُن کی یادمیں فیچر اور کالم چَھپنے لگے تو میرا تعارف اُن سے مزید بڑھا۔اُن کے چند ایک اُفکار میری نظر سے گُزرے تو مجھے حیرت ہوئی کہ اِس قدر اعلیٰ پائے کی نگارشات ان اخباروالوں نے پہلے کیوں شائع نہیں کیں ۔ہمارے معاشرے میں کوئی فنکار جبھی کیوں سراہا جاتا ہے جب وہ اِس دارِفانی سے کُوچ کر جائے؟نجانے زندہ فنکار اور اُس کے فن کو ہم اپنی توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھتے!اُن کا” سفارش“ نامی افسانہ اور

”اب تو کچھ اور اعجاز ہی دکھایا جائے

شام کے بعد بھی سورج نہ بُجھایا جائے“

کے مطلع والی غزل بھی سالِ اوّل ہی میں پڑھنے کا موقع ملاتواُن کی عقلی شاعری اور انتہائی حقیقت پسندانہ افسانہ نگاری کی کچھ مزید پَرتیں وَا ہوئیں۔

   پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے شعبہ علومِ شرقیہ میں احمد ندیم قاسمیؒ سے میرا تیسرا تعارف ہوا۔اُن کے افسانوں کے آخری مجموعے اور آخری سالوں کی شاعری کا ایک مجموعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان دو کتب کے مطالعے کے بعد مُجھ پر اُن کی بے باک شخصیت اور حقیقت پسندانہ شخصیت کے کچھ مزید گوشے آشکار ہوئے۔خاص کر اُن کے آخری شاعری مجموعے کے شروع میں تحریر شدہ وہ ایک شعر تو مجھے اِس تاریک سیاہ اور نفسا نفسی کے دَور میں روشنی اور محبت کے ایک استعارے کی مانند لگا۔

ندیمؔ،میرے جلو میں تھی نسلِ مستقبل

میں صرف ایک تھا اور بے شمار ہو کے چلا

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمیؒ کی شاعری میں جو نیا پَن،جو اُجلا پَن ،اظہارِ بیان اور ندرت مجھے ملی،وہ میں نے کسی اور شاعر کی شاعری میں محسوس نہیں کی ۔ اُن کی شاعری میں پاکیزگی آمیز کسک پوشیدہ تھی جو 1916ءمیں وادی ءِسُون کے ایک پسماندہ علاقے میں جنم لینے والے اِس شاعر کی نجانے کتنی ریاضتوں کا حاصل تھی۔مندرجہ ذیل اشعار میں ذراندیمؔ کے اَنوکھے پَن اور اِس دَور ِ بے یقینی میں اُمید افزاءاور یقین کی آمیزش بھرے میٹھے لہجے کو ذرامحسوس کریں ،آپ کو اندازہ ہو جائے گاکہ وہ کس قدر عظیم سوچ کے عکاس ہیں۔

میں مَر بھی جاؤں تو تخلیق سے باز نہ آؤں

بنیں گے نِت نئے خاکے مِرے غبار سے بھی

٭٭٭

تِیرگی کی کبھی تکمیل نہ ہونے پائی

رات آئی پہ ستاروں کا چمکنا نہ گیا

٭٭٭

چارہ سازوں سے الگ ہے مِرا میعارکہ میں

زخم کھاؤں گاتو کچھ اور سنور جاؤں گا

٭٭٭

جس پہ جو نقشِ قدم ہو ،وہ فقط میرا ہو

صِرف اِتنی سی نئی راہ نکالی میں نے

1971ءکا سانحہ جو ہر محب ِوطن پاکستانی کے دِل کو کئی ہزار ٹکروں میں تقسیم کر گیا۔ندیمؔ جیسے شاعر کی نظر میں ذرااسے دیکھیں۔

ہم سیاست سے محبت کا چلن مانگتے ہیں

شبِ صحرا سے مگر صبحِ چمن مانگتے ہیں

 

وہ جواُبھرا بھی تو بادل میں لِپٹ کر اُبھرا

اُسی بچھڑے ہوئے سورج کی کِرن مانگتے ہیں

 

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ، بجز اذنِ کلام

ہم تو انسان کا بے ساختہ پَن مانگتے ہیں


لمحہ بھر کو لُبھا جاتے ہیں نعرے، لیکن

ہم تو اے وطن !دردِوطن مانگتے ہیں

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی 

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ندیم ؔ،آئینوں سے حیرت کے ساتھ اظہارِ حقیقت سیکھنے کا دَرس بھی دیتاہے۔

صِرف حیرت ہی نہیں آئینوں میں

اُن سے اظہارِحقیقت سیکھو!

ندیمؔ،1971ءکے جانکاہ حادثے کے بعد بھی قوم کو حقائق بتاکر سچ کا عَلم بُلند تو کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ قوم کو گِرنے کا نہیں بلکہ راکھ سے نئی زندگی کُشید کرنے کا مشورہ بھی دیتا ہے۔

اگر ہے جذبہءِ تعمیر زندہ

تو پھر کس چیزکی ہم میں کمی ہے

اقباؔلؒ،غالبؔ کے بعد اُردو کا عظیم ترین شاعرتھا۔فیض ؔکی موسیقیت بھری شاعری لاجواب ہے اور اُردو شاعری میں فیضؔ کا تیسرا نمبر ہے اور فیضؔ کے بعد ،فیضؔ کا ہم عصر مگر ندرت اور اَنوکھے پَن کے ذائقے سے مالا مال شاعری کرنے والااحمد ندیمؔ قاسمیؒ ہے جو صِرف شاعرنہیں تھا بلکہ حقیقت سے قریب تر افسانہ نگاری میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں ۔وطن ِعزیز کے بارے میں دُعائیں تو سبھی محب ِ وطن کرتے ہیں لیکن ندیمؔ کے قلم سے موتیوں کا جَھرنا بہتاہے اورقرطاس پر وہ جڑاؤ اطلس بکھیرتا ہے کہ ندیمؔ کے تعارف کے لیے اس کی وہ ایک نظم ہی کافی ہے۔

خداکرے کہ مِری اَرضِ پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہءِ زوال نہ ہو

 

یہاں جو پُھول کِھلے وہ کِھلا رہے صدیوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

 

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

 

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں سے بھی ،روئیدگی محال نہ ہو

 

خدا کرے کہ نہ خم ہو،سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

 

ہر ایک فرد ہو تہذیب وفن کا اَوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو

 

خداکرے کہ مِرے اِک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جُرم نہ ہو ،زندگی وبال نہ ہو

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے