زمانے
کو نجانے کیا دشمنی ہے کہ ہمیشہ میری سوچ کے اُلٹ چلتا ہے ۔اب یہی دیکھ لیجئے کہ
میں نے ایک یونہی سا کالم 'اے پی سی'کے
نام سے لکھا۔انہی دِنوں ایک ادبی فیس بک
گروپ پر افسانہ لکھنے کا مقابلہ ہوا۔میں نے ویسے ہی وہ فکاہیہ تحریر اس مقابلے کے لیے
بھیج دی۔ اور منتظمین نے اسے 'نئی افسانوی روایت کا علمبردار'قرار دے دیا۔اوراسی
پر بس کہاں میں نے ایک لوکل اخبار میں 'موبائل لٹریچر' کے نام سے کالم لکھا۔یہ ایک
ہلکی پھلکی تحریر تھی جس میں موبائل پر
موصول ہونے والے چند دلچسپ پیغامات،اشعار اور اقوال شامل تھے ۔ اس پر عوامی ردّ
عمل کیا تھا مجھے کبھی معلوم نہ ہو سکا ۔لیکن
کچھ دن پہلے پرانی چیزیں دیکھتے ہوئے
یونہی میری نظر سے گزرا تو میں نے بلاگ پر
اَپ لوڈ کردیا۔اس نے وہ ویوز سمیٹے کہ کیا کہنے ! بلاگ کی' آل ٹائم فیورٹ 'میں پانچویں نمبر پر آکر دَم لیااور جن کو میں نے بڑے مان کے ساتھ لکھ کر پوسٹ کیا تھا اُن کو پیچھے چھوڑدیا۔
اب
جب ویوز( Views)آرہے
ہوں تو کون کافر ریٹنگ والی چیزوں کو چھوڑے گا ۔ لہٰذا حاضر ہے ایک مزید سلسلہ
'نیٹ لٹریچر 'کے نام سے ۔اور اس میں شامل
ہیں وہ دلچسپ چیزیں جو ہمیں انٹرنیٹ پر آوارہ گردی(وہی جسے آج کل Surfingکہتے
ہیں )کے دوران ملیں ۔جہاں پر ہمیں حوالہ یاد ہوگا
وہاں آپ کو بتادیں گے کہ یہ چیز فلاں جگہ سے ملی ۔ہاں البتہ اگر ہم کہیں آپ کو بات بناتے ہوئے نظر آئیں تو سمجھ جائیے گا کہ حوالہ یاد نہیں ہے ۔ویسے بھی پیار اور کاروبار کے معاملات ایسے
'سمجھوتوں ' سے ہی چلتے ہیں ۔ اور اگر آپ ایسا نہ سمجھیں تو پھر برداشت نام کی بھی ایک چیز ہوتی ہے ۔ اسی پر اکتفاء کریں ۔
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
سب
سے پہلے عبدالحمید عدم کے ایک قطعہ کامزا لیجئے جو ہمیں ایک دوست شاعر کی فیس بک وال پر ملاتھا:
کیا حسین خار تھے جو مری
نگاہ نے
سادگی سے بارہارُوح میں چبھو لیے
زندگی کا راستہ کاٹنا تو تھا
عدمؔ
جاگ اُٹھے تو چل
دیئے تھک گئے تو سو لیے
آہا!
فیض احمد فیضؔ ایک قطعہ بھی ملاحظہ
ہو جو 'جرس'نام کے ایک ادبی پیج پہ نظر
پڑا تھا:
رات یوں دل میں تری کھوئی ہو ئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِنسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ
قرار آجائے
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک
قطعہ اور مل گیا ہے ۔ نامعلوم کس کا ہے ۔پر
شیکسپیئر کے بقول
'نام
میں کیا رکھا ہے'
سو، آم
حاضر ہے :
لائنیں کٹتی رہیں لفظ بدلنے کے سبب
کوئی تحریر مسلسل نہیں ہونے پائی
حاصل ِعمر چند ادھورے خاکے
کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پائی
آج
کی تحریر 'قطعہ نامہ'بنتی جارہی ہے۔ یہ بات ہم یوں کہہ رہے ہیں کہ اگلی منتخب چیز بھی قطعہ ہی ہے ۔یہ شبیر ساقیؔ
کاکلام ہے اور سلیم ناز کے نیٹ کالم 'نازبرداریاں 'سے ہمارے ہاتھ آیا:
تیری یادوں کو ڈھال رکھا ہے
غم ِ دنیا کو ٹال رکھا ہے
لوگ جس درد سے گریزاں ہیں
ہم نے سینے میں پال رکھا ہے
کہئے
حضرت !کیسا لگا؟'لاجواب 'یا'بکواس'؟؟
خیر آپ جو بھی کہہ رہے ہوں ' ہم آپ کے جواب اور
کالم کے اختتام میں شبیر ساقیؔ کا ایک اور
قطعہ ہی پیش کریں گے۔
ایسا اوجِ کمال دیتی ہے
مجھ سا میلا اُجال دیتی
ہے
تیری رحمت سے ہے بھرم
ورنہ
دنیا شجرے کھنگال دیتی ہے
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
0 تبصرے