ہمارے
ملک کے عوام کے اعلیٰ خیالات اورسوچ پہ آپ کو کوئی اعتراض ہوتو وہ اپنی جگہ لیکن
بھئی! میں تو اِس قوم کے عاقلوں کی ازحد قدر کرتا ہوں ۔ ایسی ایسی بات کہہ یا
کر جاتے ہیں کہ بندہ بس دیکھتا ہی رہ جاتا
ہے ۔اب ذرایہی دیکھیے کہ ہمارے ایک عدد دوست تھے جو کافی علم و
عقل کی گٹھریاں اُٹھائے پھرتے تھے۔ ایک دن
خراماں خراماں میرے پاس تشریف لائے ۔خلافِ معمول کچھ دیر
خاموش بیٹھے رہے لیکن مجھے ان کی خاموشی میں
پنہاں طوفان کا اندازہ نہ ہوسکا
۔کافی دیربیٹھے رہنے کے بعد بھی جب وہ لب کھولنے پہ آمادہ نہ ہوئے تو میں نے تنگ آ کر تشریف آوری کا مقصد پو چھا جوبعد
ازاں اپنے پاﺅں
پہ کلہاڑی ثابت ہوا۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
راز
دارانہ لہجے میں پوچھنے لگے: ”تم رائٹر
ہو؟“
میں
چونک اُٹھا کیونکہ یہ بات ان کے پوچھنے کی نہیں تھی۔سچ پوچھیں تو میرے
بتانےکی بھی نہیں تھی۔ بہر حال میں نے عرض کی کہ ”حضور !وہ جو دو تین ماہ سے آپ
مسوّدات لے لے کر پڑھ رہے ہیں ، وہ میں نے
ہی لکھے تھے “
انہیں
یقین نہ آیا ۔ غالباََ اپنی تسلی کے لیے پھر پوچھا :”یعنی وہ تم نے لکھے ہیں ؟“
”تو اور کیا آرڈر پہ تیار کروائے ہیں “ میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
وہ
سراپا انکاری ہو گئے:”مجھے تو یقین نہیں
ہے بھئی !“
اب
ان حضرت کو یقین دلانے کے لیے میں قاضی تو
نہ لاسکتا تھا ۔ وہ کچھ دیر پھر سوچ کے سمندرمیں
غوطہ زن رہے اور پھراچانک بولے تو ایسا کہ میں بے ساختہ سر پیٹنے پہ مجبور ہوگیا۔
کہنے لگے:”اگر یہ سارے کالم تمہارے ہیں تو کیا تمہیں سب زبانی یاد ہیں ؟“
میں کہ
شرط پوری نہ کر سکتا تھا۔سو ،سیدھے سبھاﺅاعتراف
ِ جرم کر لیا۔ اب اتنی سادہ فتح بھی اُن حضرت کے لیے کافی نہ تھی ۔سو، بزعمِ خود
،مجھے رعایت دیتے ہوئے بولے: ”اچھا ،سارے کالم زبانی نہ سناﺅ۔
پر سب کے نام ہی بتا دو“
اور میں
صرف بے بسی سے انہیں دیکھتا رہ گیا……
مزید دِل
چسپ بلاگ:
2 تبصرے
Humor can't be generated...
جواب دیںحذف کریںIt's all around us...
It's just collected and passed on... Well said and very well narrated...
عمدہ!
جواب دیںحذف کریں