Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

اب پشیماں ہیں کہ

 
Ab Pashaima'n hain k..., Asad, Asad Mahmood, Urdu, Columns, Pakistan, Politics, Pakistan Politics, Dictatorship in Pakistan, Bureaucracy in Pakistan, Urdu Columns today, urdu columns on current affairs, urdu blogpost, urdu blog,

کہا جاتا ہے کہ ایک حبشی غلام اپنے آقا کے ساتھ رہتے رہتے تنگ آگیا۔وجہ یہ تھی کہ اُس کا آقا خود تو چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتا جبکہ اُسے بے چھنے آٹے کی روٹی دیتا۔غلام نے اپنے آقا سے کہا کہ اب وہ اس کے ساتھ مزید گزارا نہیں  کر سکتالہٰذااسے کسی کے ہاتھ بیچ دے۔ آقا نے اُس کی بات مانتے ہوئے اُسے بیچ دیا۔اب یہ ہوا کہ غلام کا نیا آقا خود تو پوری روٹی کھاتا لیکن اُسے آدھی روٹی دیتا۔

 کچھ عرصہ رہنے کے بعد غلام آدھی روٹی کھا کھا کے بھوک کے ہاتھوں  تنگ آگیا۔اُس نے اپنے مالک سے خود کو کسی اَور کے آگے بیچنے کا کہا۔مالک نے اُس کی بات مان لی اور ایساہی کیا۔اب واقعہ یہ ہوا کہ نئے مالک نے غلام کا سر مونڈھ دیا ۔وہ ساری رات اُس کے سر پہ چراغ روشن کر کے رکھ چھو ڑتااور کھانے کو کچھ بھی نہ دیتا۔غلام چند دن بعد ہی بھوک اور خوف سے سوکھ کر کانٹا ہو گیا ۔اُس نے سوچاکہ کیوں  نہ وہ اِس آقا سے بھی کہے کہ اُسے بیچ دو لیکن جب اس نے اپنے ساتھ بیتے تمام واقعات پر غور کیاتو علم ہوا کہ یہ بلندی سے پستی کی طرف سفر تھا۔ وہ بے چھنی پوری روٹی کے ہاتھوں  سے تنگ تھا جسے وہ چھنی ہوئی آدھی روٹی کے ہاتھوں  گنوا بیٹھا۔وہ آدھی روٹی کھا کھا کے عاجز آیا تو اس سے بھی ہاتھ دھوبیٹھا۔

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

اُس نے سوچاکہ موجودہ آقا اُسے بھوکا رکھتاہے،رات رات بھر سر پہ چراغ جلائے اُسے کھڑا رکھتاہے۔اب یہ نہ ہو کہ نیا آقا ایک آنکھ ہی نکلوا کر اُس میں  تیل ڈال کر اُسے چراغ بنا لے۔یہ خیال آتے ہی غلام نے خوف سے ایک جھرجھری لی ۔ اپنے ارادے سے توبہ کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے اپنے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

مندرجہ بالا حکایت کو ذہن میں  رکھتے ہوئے اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں  تو معلوم ہوگا گا کہ ہم نے بھی من حیث القوم ایسے ہی معکوس ترقی کا سفر طے کیا ہے۔

1947ء میں  لاالٰہ کے نعرے پر پاکستان بن گیا۔ کہنے والوں  نے اسے اسلام کا قلعہ اور تجربہ گاہ تک کہہ دیا لیکن بابائے قوم کی وفات کے بعد سے محلاتی سازشوں  کا وہ دَور شروع ہوا  جس نے حکمران طبقے کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر قسم کی برائی جائز قرار پائی۔ محلاتی سازشوں  کاایک طویل سلسلہ شروع ہوا جنہیں مذہب ، جمہوریت اور سیاست کی آڑ میں  چھپانے کی مذموم کوششیں  کی گئیں ۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

اسلام کی تجربہ گاہ بننا تودرکنار  یہ اقتدار کے پجاریوں  کے ہاتھوں  فرقہ واریت  زبان و زمین کے جھگڑوں  اور دہشت گردی جیسے گھناؤنے افعال کا اڈا بن گیا ۔اب تو اسلام کااصلی چہرہ کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں  ملتا۔سیاسی اداکاروں  نے اسلام کا چہرہ یو ں  بگاڑا کہ ہر کوئی مذہب سے متنفر نہیں تو کھنچا کھنچا ضرور دکھائی دیتا ہے۔عوام کے سامنے اسلام کی ایسی ایسی توجیہات اور تشریحات پیش کی گئیں  کہ ہر شخص کا اسلام دوسرے سے الگ ہوگیا ۔ یہ جو آئے روز چلاس جیسے سانحات ہورہے ہیں  'وہ انہی اٹھارہ کروڑ فرقوں  کے باعث ہیں ۔ احمد فراز ؔنے شاید اسی لیے کہا تھا۔

آئے روز اک نئی آفت چلی آتی ہے فراز

اب پشیماں  ہیں  کہ یہ شہر بسانے کا نہ تھا

70سالہ تاریخ کو ریوائنڈکیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں  پہلے عام انتخابات1971ء کو ہوئے یعنی اِس سے پہلے عوام بے قصور اور محض تماشائی تھے۔ تمام خرابیوں  کا ذمہ دار حکومتی طبقہ تھا ۔ ٹیکنو کریسی کے مذاق کی انتہایہ تھی کہ مملکت ِ خداد9سال تک اپنا آئین بھی نہ بنا سکی۔ اسے پہلا آئین 1956ء کو نصیب ہوا ۔ اوراس آئین میں  نام کے ساتھ 'اسلامی جمہوریہ' اور چند سزاؤں  کے کوئی چیز اسلام سے متعلق نہ تھی۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

بیوروکریسی کی اُکھاڑ پچھاڑ زیادہ دیر نہ چل سکی اور 1958ء میں  فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔1965ء کی پاک بھارت جنگ میں  مارشل لاء کے باوجود ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آئی۔تاشقند معاہدے کو بنیاد بناکر ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور 1971ء کے انتخابات میں مغربی پاکستان میں  بھر پور کامیابی حاصل کی۔یہ جمہوریت کی 'برکت'کانقطہ ٔ آغاز تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ ملک اسی سال دولخت ہوگیا۔1973ء میں  ایک اورآئین لکھا گیالیکن اس میں  بھی صرف 'اسلامی جمہوریہ'کہنے پر ہی ٹرخایا گیا،اسلامی بنانے کی طرف کوئی نہ گیا۔

1977ء میں جنرل محمد ضیا ء الحق نے جمہوریت کو مارشل لاء کے کمبل میں  لپیٹ دیا۔جنرل موصوف نے 1988ء میں  طیارہ حادثہ میں  جاں  بحق ہونے سے قبل چند ایک اسلامی دفعات مزید نافذ کیں لیکن مکمل اسلامی آئین کا نفاذ کسی نے گواراکیااور نہ ضر وری سمجھا۔'کہنے والے' کہتے ہیں  کہ1979ء میں  روس کی شکست پر ختم ہونے والی افغان جنگ میں  جنرل نے مغربی طاقتوں  کی ایماء پر طالبان جیسی عفریت کوجنم دیا۔جو بعد میں  پاکستان کی سلامتی کے بھی دشمن بن گئے۔ظاہر ہے کوئلوں  کی دلالی میں  منہ تو کالا ہوتا ہی ہے ۔1988ء کے بعد سیاسی راہنماؤں  نے یکے بعد دیگرے جمہوریت کی کئی چھوٹی چھوٹی 'اننگز'کھیلیں  لیکن چونکہ جمہوریت 'آزادی'کا صحیح اور اصلی نام ہے ۔ اس لیے ان مختصرجمہوری ادوار کو ختم کرنے میں  بھی اکثر دوسری جمہوریت کا اپنا ہاتھ ہی رہا۔

یہ بھی پڑھیے:

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

اسپانسرڈ شاعرات

اکتوبر 1998ء میں  جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر ایمرجنسی نافذ کردی اور2008ء تک ملک پر بلا شرکت غیرے حکومت کرنے کے بعد بیرونِ ملک کھسک گئے۔'کہنے والوں ' کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے حالیہ'گاڈ زِلا' کے 'گاڈ فادر'یہی حضرت ہیں۔2008ء میں  ایک بار پھر جمہوریت نے پر پھیلائے اورپانچ سال تک ان پروں  سے انتقام کا لہو ٹپکتا رہا ۔2013ء میں  پہلی بار کسی جمہوری حکومت نے پانچ سال پورے کیے۔پر ان پانچ سالوں  کا 'فیض'یہ تھا کہ اگلے الیکشن میں  اس پارٹی کا صفایا ہوگیا۔حکومت میں  آنے والی پارٹی اب مر مر کے دِن پورے کر رہی ہے۔

قارئین کرام !آپ ترقی معکوس کے اس سفر کو دیکھیں  توعلم ہو گا کہ اگر مارشل لاء ملک میں  خرابیاں  پیدا کی ہیں  تو جمہوریت نے بھی انہیں  ختم نہیں  کیا بلکہ ان میں  اپنی استطاعت کے مطابق اضافہ ہی کیا ہے۔اگر آمریت کے پاس 'نظریۂ ضرورت'کی چھتری تھی تو جمہوریت بھی 'ڈنگ ٹپاؤ'پالیسی پر ہی کاربند رہی ہے۔اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ'جیسی عوام ہو ،ویسے ہی حکمران ہوتے ہیں ' ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہم میں  سے ہر کوئی اُس وقت تک پکا مومن ہے جب تک وہ بے اختیار ہے ۔اِدھر کسی کو کچھ اختیار ملا اور اُدھر وہ بزعم خود اَن داتا بن بیٹھا۔اگرہم سب اپنے اپنے گریبان میں  جھانکیں  تویہ احساس ہوگا کہ ہم بھی حبشی غلام کی طرح اپنے کیے کا پھل کاٹ رہے ہیں  ۔ہاں  البتہ ایک چیز ہم میں  سوا ہے۔ ہم قصور وار دوسروں  کو ٹھہرارہے ہیں ۔

ملاحظہ ہوں شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے