کمار وشواس بھی کیا خوب آدمی ہے ۔ شاعر ہے ، پروفیسر رہا ہے
، ڈاکٹر ہو گیا ہے ، ایم ایل اے(ممبر آف
لیجسلیٹو اسمبلی ) بن چکا ہے پر جو ڈھنگ اِس میں محفل بازی بلکہ رنگ بازی کا ہے وہ کسی اور میں نہیں ملتا ۔ یہ
اپنے آپ میں ایک دبستان واقع ہوا ہے۔شاعری کے پیچھے بھلے ہی خوب صورت گائیکی کا ہاتھ
زیادہ ہو لیکن باتیں اس شخص پر جیسے نازل
ہوتی ہیں، گفتگو کی روانی متاثر ہوتی ہے
نہ ہی زبان دانی پر آنچ آتی ہے۔پچھلے دِنوں ادب پر اِس کی نشست سننے کا اِتفاق ہوا۔ باقی
تو جو سمجھ آیا ‘سو آیا۔ البتہ دوسرے شعراءکی کیا باکمال شاعری سنائی اِس
شخص نے ۔ ہم آج تک یہی سمجھتے رہے کہ اِس کی اپنی شاعری گزارے لائق ہی ہے جس کو یہ
ترنم اور چٹکلوں کے سہارے سنا کر مشاعرے
لوٹتا رہتاہے ۔ مگر جب سے اِس نے دیگر شعراء کی اِتنی عمدہ شاعری سنائی ہے ۔ اِس
کا درجہ مزید بڑھ گیا ہے ۔ اِتنا اَچھا سننے والا ‘اِتنا اَچھے پڑھنے
والا اور اساتذہ کا ذکر اِس محبت سے کرنے والا یقینا کبھی محروم نہیں رَہ سکتا۔ ظالم نے رمیش یادیو نامی کسی شاعرکا ایک مطلع
ترنم میں سنایا اور گویا آغاز سے قبل ہی محفل
ہی لوٹ لی ۔
یہ پیلا
باسنتیا چاند
چندانے
کبھی راتیں پی لیں
راتوں
نے کبھی پی لیا چاند
یہ
پیلا باسنتیا چاند
اور پھر یہ اسی پر کہاں بس کرنے والا تھا۔ شش پال سنگھ نردھن کے ایک بیت
پر بھی کمال ہاتھ صاف کیے اوروہ بھی اپنے
نکھرے ترنم میں ۔
ایک
پرانے دُکھ نے پوچھاکیاتم ابھی وہیں رہتے
ہو؟
میں
نے کہا چلے مت آنا میں نے وہ گھر بدل دیا ہے
اور پھر جب بات شیو کمار کے نمائندہ شعر پر پہنچی تو اِس نے
الگ ہی طرح دار شعر سنبھال رکھا تھا ۔ جو اِس کے ترنم سے مل کر سِوا تاثیر پاگیا۔
تم
نے چھوڑا شہر، دھوپ دُبلی ہوئی
پیلیا
ہو گیا ہے ، اَملتاس کو
سوم ٹھاکر نامی ایک
شاعر کا یہ قطعہ تو گویا اَنت ٹھہرا۔ یہ زمانوں یاد رَہ والی دُعا آپ بھی ملاحظہ کریں ۔
گر
گیا ہوں کسی بے سُرے موڑ پر
بانسری
کی لہر سے اُٹھا لو مجھے
روشنی
کے لیے میں پریشان ہوں
اِس
اندھیری گلی سے نکالو مجھے
دیگر شعراء کا ذکر
چلا تو کمار وشواس کو مہیشور تیواری بھی یاد آئے اور خوب یاد آئے۔
ایک
تمہارا ہونا، کیا سے کیا کر دیتا ہے
بے
زبان چھت دیواروں کو گھر کر دیتا ہے
سلسلہءِ کلام تو بعد
میں بھی جاری رہا مگر خمار بارہ بنکوی کا
شعراُنہی کے آہنگ میں سنا کر کمار وشواس
نے کلاسیک شاعری سے نابلد ہونے کا اعتراض کرنے والوں کو کرارا جواب دے دیا۔
نہ
ہارا ہے عشق اور نہ دُنیا تھکی ہے
دِیا
جل رہا ہے، ہوا چل رہی ہے
تو بات یہ ہے مجاہدو کہ آسان لکھنا بہت مشکل کام ہے اور
کمار وشواس یہ کام کررہاہے ۔ وہ شاعری کی
نئی روایتوں کا اَمین بھلے ہی نہ ہو لیکن
شعری روایت سے ناواقف نہیں ۔ نوجوان نسل کو اُردو ہندی شاعری (بلکہ لہجے)سے
متعارف کرانے کے
معاملے میں اُس کا نام ہی کافی ہے ۔
ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
مزید پڑھیے:
0 تبصرے