دیکھئے!
اُردو کے روبہ زوال ہونے کا تذکرہ تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن جیسا جذبہ اور لگن ہم
نے دکھائی وہ اگر دو چار اور لوگوں میں ہوتی تو اب تک ہر انگریز اُردودان بن چکا ہوتا ۔صرف
انگریز اس لیے کہ ان کی زبان سیکھنے کے لیے ہمیں جو مشقت اُٹھانی پڑی وہ ہمِیں جانتے ہیں ۔ ہماری چند ناقابل تردید خدمات میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے کالج کے آخری دِنوں میں تحریک ِ نفاذِ اُردو کے نام سے ایک عدد تحریک
چلائی تھی۔یہ ایک کمرے،اس کے دروازے اور اُن پہ لگے دو پوسٹرز پر مشتمل ایک' بین
الاقوامی 'تحریک تھی ۔ وہ دو پوسٹرز بھی خاکسار نے اپنے قلم سے ازخود تحریر کیے
تھے ۔ اُن میں سے ایک پہ تو ساغرصدیقی کی
غزل اور دوسری پہ خود ہماری ایک ڈیڑھ دو من 'وزن' والی نظم تحریر تھی اوردونوں پوسٹرز کے نیچے جلی حروف میں لکھا تھا '' تحریک ِنفاذِاُردو،پاکستان''
ادبی وی لاگز یہاں ملاحظہ فرمائیں!
اِس
تحریک کا دورانیہ قریباََ دس بارہ دِن کا تھا ۔اس کے بعد ہم کالج سمیت ہاسٹل کے اس
کمرے کو بھی الوداع کہہ آئے ۔وہ دونوں پوسٹرز البتہ کوچ سے پہلے ہم نے اُتار لیے تھے۔ ہمیں اب بھی کئی دفعہ بڑی حیرت ہوتی ہے کہ نجانے
ہماری اتنی کوششوں کے باوجود بھی یہ تحریک
کیوں نہ پنپ سکی ۔ پھر سوچتے ہیں کہ ہر چیز اپنا مقدر لکھوا کر لاتی ہے ۔شاید اسی
وجہ سے ۔ ورنہ ہم نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی!
ادبی روسٹ ویڈیوز یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
مزید پڑھیں:
0 تبصرے