Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

انسان معصوم ہے خدایا

Insan Masoom Hai Khudaya, Innocence, Masoomiyat, Asad, Asad Mahmood, Blogs & Reviews, Literature, Sad, Sad Stories, best, latest,

”آج صبح یہاں  ایک بڑا عجیب واقعہ ہوا“

خاموش بیٹھے بیٹھے اچانک ہی وہ عام سے انداز میں  گویا ہوا اور میں  چونک پڑا۔

”کیوں، ایسا کیا ہوگیا؟“

میں  اپنے تجسس پہ قابو نہ پاسکا۔

میں  اس کے ساتھ اس کی ہی لائبریری میں  بیٹھا ہوا تھا۔ہماری دوستی زمان ومکان کی قید سے آزاد تھی ۔ ہم دونوں  ہی فی زمانہ رائج رسموں  ،رواجوں  اور روایتوں  کے باغی تھے۔ ہماری سوچ کی راہیں گو ایک سی نہیں  تھیں  ،لیکن ہمارے خیالوں  کے دھارے گھوم پھر کر ایک ہی دائرے ،ایک ہی نکتے پہ آملتے تھے۔ہماری ملاقاتیں بھی عجیب ہوتی تھیں۔ اکثر پہروں  ایک دوسرے کے ساتھ خاموش بیٹھے رہتے ۔ بنا کسی گفتگو کے ،لیکن کبھی بوریت یا گفتگو کی ضرورت ہی محسوس نہیں  ہوتی تھی۔ہماری خاموشی میں  بھی ایک طرزِ گفتگو تھی۔سیرِ حاصل گفتگو۔امجد اسلام امجد نے بھی ایسے ہی تو نہیں  کہا تھا کہ

تخلیے کی باتوں  میں

گفتگو اضافی ہے

سو، اس دن بھی ،ایسے ہی خاموش ”گفتگو“کے دوران جب وہ بولا تو میرا چونکنا لازمی اَمر تھا۔میرے پوچھنے پہ وہ کرسی پہ سیدھا ہوکے بیٹھ گیا۔  اپنے سامنے میز پہ موجود کتاب پر سے فرضی گرد جھاڑی اور دوبارہ گویا ہوا:

”آج ہوا کچھ یوں  کہ دو تین گاؤں  دور سے ساتھ والی دکان پہ ایک آدمی آیا،وہ سویٹر خریدنا چاہتا تھا“

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

اس نے اپنی لائبریری کے ساتھ واقع کپڑوں  کی دکان کی طرف اشارہ کیا ۔میں  اُلجھ سا گیا،بات میرے پلے نہیں  پڑی تھی چنانچہ میں  نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح ٹانگ اَڑائی:

”تو بھئی، یہ کپڑوں  کی دکان ہے ۔ لوگ یہاں  کپڑوں  کی خریداری کے لیے ہی آئیں  گے نا۔ نہ کہ  دودھ سوڈا خریدنے“

”تم بات نہیں  سمجھے“

اس نے سامنے پڑی کتاب اُٹھا کر ایک شیلف میں  رکھی اور دوبار ہ کرسی پہ آبیٹھا۔

"کیابات ؟میں  کیانہیں  سمجھا"

وہ چڑ سا گیا:

”پوری بات تو سن لو،تم اپنی موشگافیاں  بعد میں  نکالتے رہنا“

”اچھا اچھا بھئی بولو! اب بول بھی چُکو!“

میں  نے تفتیشی لہجہ ترک کر دیا۔

”بات یہ ہے کہ وہ شخص ایک ایسی سویٹر کا طالب تھا،جس کے دونوں  طرف جیب ہوں ۔ دکاندار نے اُسے ایک عمدہ سویٹر دکھایا۔ اسے پسند بھی آگیا۔ پر جب معاملہ قیمت پر پہنچا تو اس نے اپنی جیب سے بیس بیس کے چھ نوٹ نکالے اوران میں  سے پانچ دکاندار کو دیتے ہوئے کہاکہ یہ لو ،یہی بہت ہیں ۔ دکان دار جوسویٹر کی قیمت آٹھ سو روپے بتا رہاتھا،حیرت زدہ رہ گیا اور صاف انکا ر کر دیا پھر اس گاہک سے بیس روپے کا ایک اور،آخری نوٹ بھی دکاندار کو دیتے ہوئے ایک سو بیس روپے پہ بات ختم کرنی چاہیے لیکن دکان دار اتنے سستے داموں  سویٹر بیچنے کے لیے تیار نہ تھا۔ بحث کی آواز پر میں اور اِرد گرد کے دوتین مزید دکاندار بھی اکٹھے ہوگئے ۔ میرے علاوہ باقی سب تماش بین اس  کامذاق اُڑانے لگے“

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

کہانی سناتے سناتے اُس کی آواز جیسے رُندھ سی گئی تھی۔ میرا حلق بھی نمکین ساہوچلا تھا۔  وہ دوبارہ گویا ہوا:

”وہ آدمی اتنا سادہ تھاکہ ایک دکاندار کے پوچھنے پر کہنے لگا کہ خدا کے فضل سے اس دفعہ فصل بہت اچھی ہوئی اور میں  نے ابھی دو دن پہلے ہی پوری ایک بوری مونگ پھلی کی بیچی ہے“

”تو اس میں  سادہ پن کیا ہے؟“

میں  نے پھر ٹانگ اَڑائی۔

”یار!وہ ایک بوری مونگ پھلی کی بیچ کر آیا تھا اور اس کی خواہش صرف یہ تھی کہ اسے دو جیبوں  والی سویٹر مل جائے“

”تو پھر کیا انجام ہوا فسانے کا؟“

میں  نے تجسس کے ہاتھوں  مجبور ہوکر اسے پھر ٹوکا:

”سویٹر کے مالک دکاندارنے وہاں  موجود دوسرے دکانداروں  سے مشورے کے بعد اسے ایک اور دکان کا پتہ دے کر چلتا کیا“

اس کی آواز میں  ان دیکھی ٹوٹ کا عنصر شامل تھا۔

”دوسری کون سی دکان؟اور بھلا وہاں  سے اسے سویٹر مل گیاہوگا؟“

میں  نے قیاس سے اپنی امید کے ٹوٹتے دیے کو لَو دینے کی کوشش کی ۔

”کہاں  یار، اگر اس دکاندار نے خود نہیں  دیا تو دوسرا ایساکون پاگل ہو گا؟“

اس کی بات مکمل ہوئی تو ماحول پر ایک گھمبیر سی افسردگی کی چادر تن گئی۔

 چند لمحے بعد وہ پھر بولا:

”میں  نے اس شخص کے جانے کے بعد یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ یہاں  آیا تومیں  اپنے پاس سے اسے وہ سویٹر خرید کر دے دوں  گا۔ لیکن وہ دوبارہ آیا ہی نہیں “

اس کی آواز میں  نمی کی بھی ہلکی سی آمیزش شامل تھی۔ میری پلکوں  کے گوشے بھی پرنم سے ہونے لگے۔ وہ بات جو میر ے ذہن میں  وارد ہوئی تھی ۔میں  اسے اس کے سامنے کہنا نہیں  چاہتا تھا لیکن ہم زمانے کی رسوم کے باغی تھے ۔ میں  بھی اپنی روایت شکنی کی روایت کو توڑنا نہیں  چاہتا تھا۔سو،بالآخر میں  نے کہہ ہی دیاکہ

”غالب نے کہیں  اسی لیے تونہیں  کہاتھاکہ

بناکر فقیروں  کاہم بھیس غالب

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں “

اس نے چونک کر مجھے دیکھا ۔ اس کی آنکھوں  میں نمی کے ساتھ خوف کاتاثر بھی اُترنے لگا تھا۔ اس نے اُٹھ کر شیلف سے پہلے والی کتاب اُٹھائی اور اسے کھول کر دوبارہ کرسی پہ بیٹھ گیا۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے