انسان
کو کھوجنے کے لیے نکلنے والے کا اپنے آپ میں ہی اُلجھ جانا کوئی انوکھی،کوئی اَن ہونی بات تو
نہیں ہے کہ اکثر ایسا ہی ہوتا آیا ہے لیکن
یہ قدم قدم پہ نت نئے انکشافات جو ہورہے ہیں ،میں انہیں کیاجانوں
؟یہ میری راہ آسان بنارہے ہیں یا مرا رستہ
روک رہے ہیں اور میری منزل کھوٹی کر نے کے دَرپے ہیں ؟کچھ سمجھ نہیں آتا،عجب مشکلوں نے آ گھیرا ہے۔
بکھر رہا ہوں ؟سمٹ رہا ہوں ؟
میں بڑھ رہا ہوں کہ گھٹ رہا ہوں ؟
ہر
قدم ،ہر آہٹ ،ہر انکشاف پہ میں چونک چونک جاتا
ہوں ۔چونکنا بھی تو شاید ہوش میں آنے کی علامت
ہوتا ہے لیکن یہ میرا چونکنا کیسا ہے کہ جسے عالمِ بیداری بھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ تو ہوش و حواس اور عالمِ مدہوشی و
بے کیفی کے درمیان کی سی کیفیت ہے۔
ہیں اُلجھی راہیں خبر نہیں ہے
میں جارہا ہوں ؟پلٹ رہا ہوں ؟
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
طلسماتی
کہانیوں میں جیسے افسانوی و غیر حقیقی کردار روپ بدل بدل کر مرکزی
کردار کو چڑاتے ہیں ،اسے تنگ کرتے ہیں بالکل ویسے ہی انسان بھی میرے سامنے کئی بہروپ
دھارے آموجود ہوا ہے اور میں اس کشمکش میں
ہوں کہ کسے سچ جانوں ؟اور کسے نظر کافریب؟کون صحیح ہے
؟ اور کیا غلط؟لیکن ان سب میں تمیز کرنا، ان
سب کا فرق جاننا اتنا آسان ،اتنا سہل تو ہرگز نہیں ہے!
گزارتا ہوں ؟گزر رہا ہوں ؟
میں کاٹتا ہوں ؟ کہ کٹ رہا ہوں ؟
مجھے تو خود کو سمیٹنا تھا
میں کتنے ٹکڑوں میں بٹ رہا
ہوں ؟
موسم
سرما کی ایک نیم تاریک ، خوشگوار سرد شام تھی۔ہوا ساکن تھی ۔آسمان پہ باد ل کے ٹکڑے
جابجا ایسے بکھرے ہوئے تھے جیسے کسی نے لحاف کی روئی میں لاتعداد چھید کر دیئے ہوں ۔سورج کی روشنی کی کچھ
کرنیں ،انہی چھیدوں میں سے چھن
چھن کر زمین کو مکمل تاریکی سے باز رکھے ہوئے تھیں ۔
دنیا
اپنے بکھیڑوں میں مشغول تھی اورمیں ایک دوست کے ساتھ کیفے ٹیریا کے ایک بینچ پہ چائے
سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ہمارے ذہنوں کے تاریک
اور اُجلے گوشوں میں پوشیدہ نیم پختہ فلسفے بھی گرم چائے کے کپ سے برآمد
ہوتی بھاپ کی طرح اُمڈ رہے تھے۔ہم ایسے ہی محو ِ گفتگو تھے کہ میری مخالف سمت سے ہمارا
ایک اور دوست ہاتھ جھاڑتا ہوا آیااور ہم دونوں سے ہاتھ ملایا۔
”کہاں سے آرہے ہوبھئی؟“
دوست نے نئے آنے والے سے پوچھا۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
”
یہ ساتھ والے درخت کی جڑوں میں کافی زیادہ تعداد میں چیونٹیاں رہتی ہیں “
اس
نے کیفے ٹیریا کے عقب میں موجود ایک گھنے درخت
کی طرف اشارہ کیا ۔
”تو
تم کیا وہاں جھاڑو دینے گئے تھے؟“
”نہیں “ وہ دوبارہ گویا ہوا:”اس درخت کے نیچے موجود
چیونٹیوں کو کیک رَس کا چُورا ڈالنے گیاتھا،
یہ بڑے ثواب کاکام ہے“
مزیدچند
لمحے اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول رہنے کے بعد اس نے پھر ہم دونوں سے ہاتھ ملائے اور چل دیا،جبھی میرے دوست نے مجھ
سے پوچھا:
”کیا
یہ واقعی ثواب کاکام ہے؟میرا مطلب ہے چیونٹیوں کو کیک رَس کا چُورا ڈالنا؟“
چند ثانیے بعد اس نے اپنی بات کا خود ہی جواب دیا:
”ہاں
!اﷲ تعالیٰ کی مخلوق کو رزق پہنچانا واقعی ثواب کا کام ہے “
”لیکن
میں کچھ اور سوچ رہاہوں “
وہ
میری بات پہ بے طر ح چونکا تھا۔
”وہ
بھلا کیا؟“
اس نے تجسس سے پوچھا۔
”بہت
پہلے کسی شاعر نے کہاتھا کہ:
چاند کا دشت بھی آباد کر لینا
کبھی
پہلے یہ دنیا کے اُجڑے ہوئے
گھر تو دیکھو“
اب
وہ نہیں چونکا تھا،شاید اُسے چونکنا بھی نہیں
چاہیے تھا۔وہ بھی تو انسان تھا۔اس نے کچھ سمجھنے
،نہ سمجھنے کے عالم میں سر ہلا دیا،اندھیرا
آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تھا، اسلم شاہد کی غزل بھی شاید مکمل ہو رہی تھی:
ابھی تو سارے عدو ہیں باقی
ابھی تو خود سے نمٹ رہا ہوں
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
0 تبصرے