Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

زندگی زندہ دلی کا نام ہے

 Zindagi Zinda Dilli Ka Naam Hai, Ghalib, Naam,  Adab, Old, Bazurg, Ramzan, Joke, Lateefa, Sehri, Iftazi, Comics, Blogs & Review, Asad, Asad Mahmood,

ہمارے پنجاب میں  ناموں  کے ساتھ ایک خاص ”امتیازی سلوک“روا رکھا جاتا ہے۔ماں  باپ جو نام رکھ دیں، وہ ہماری زبانوں  کو راس نہیں  آتے اور ہم ان میں ”حسبِ توفیق“ اور”حسبِ خواہش“ اضافہ اپنا حق گردانتے ہیں  اور یوں اچھے بھلے نام کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ہیں ۔بڑی بوڑھیوں  سے تو کوئی خصوصی”انتقام“ہی لیا جاتا ہے۔ چاہے محترمہ کا نام کتنا ہی اچھا کیوں  نہ ہو، ہم اس کے ساتھ”بے“ کے سابقے کا اضافہ فرضِ عین سمجھ کر کرتے ہیں ۔

اگر کوئی بڑھیا اکیلی ہوتو پھر صرف”بے “یا ”بے جی “سے بھی کام چل جاتا ہے لیکن اگر دو چار بوڑھی خواتین اکٹھی موجود ہوں تو ہر ایک کے نام سے پہلے ”بے“ کا اضافہ حد درجہ ضروری سمجھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔اب بات چل نکلی ہے تو لگے ہاتھوں  ایک مثال بھی دیکھ لیں۔ ہمارے ہمسائے میں ایک بڑھیا آباد تھی جس کا نام اس کے گھر والوں  مطلب والدین نے بڑے چاؤ سے ”خانماں بی“رکھا تھالیکن وہ ہمارے ”امتیازی سلوک“ کے سبب ”بے خانماں  “ہوگیا۔

مجھے بھی جب تک ”خانماں  “او ر”بے خانماں “کامطلب معلوم نہیں  تھا انہیں  ایسے ہی ”تکریم و تعزیم “سے مخاطب کرتا رہالیکن جب سے ان الفاظ کے معانی معلوم ہوئے ہیں  اکثر وقت اس بات پہ اﷲتعالیٰ کا شکر ادا کرتے گزرتا ہے کہ ”خانماں  بی “اَن پڑھ تھیں ۔

٭٭٭

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

بزرگوں  کی بات شروع ہوئی ہے تو مزید سنتے چلیں  کہ ہمیں  اپنے بچپن میں  ،لڑکپن میں  اور خاص کر جوانی میں  بڑوں  سے اکثر یہی نصیحت ملی کہ

 ”دیکھو برخوردار!بزرگوں کا احترام کرنا چاہیے“

 بس جناب ہم نے تو یہ نصیحت اپنے پلے ہی سے باندھ لی اور اس کے بعد قسم ہی کھا لی کہ اگر ہم کہیں  محوِ سفر ہوں  اور کوئی بزرگ بھی ہمارے ہم سفر ہوں  تو ہم نے ”احتراماََ“ کبھی اپنا کرایہ خود ادا نہیں  کیاکہ یہ بزرگوں  کے کرنے کے کام ہیں  اور اتفاق سے جب وہ موجودبھی ہیں تو پھرہم بِلا وجہ ”بے ادبی “ کے مرتکب کیوں  ہوں ؟

اور تو اور ،اگر ریسٹورنٹ میں  کوئی بزرگ ہمارے ساتھ ہوں  یا اوپر سے آن ٹپکیں  تو تب بھی ہماری اکثر یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہم ”بے ادبی “نہ کریں  اور بِل محترم بزرگ خود ادا کریں  تو ہی بہتر ہے۔دیگر نوجوانوں  کو بھی خاکسار کاتو یہی مشورہ ہے کہ بزرگوں  کے”ادب “میں  مندرجہ بالا ٹوٹکے استعمال کریں اور ”حسبِ خواہش“ نتیجہ لیں !

٭٭٭

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

گزشتہ رمضان میں  ایک بچپن کا دوست ملا۔کچھ لمحے وقت کی ستم ظریفی اور اس قدر جلد بیت جانے پہ نالاں  سے رہنے کے بعد وہی بچپن کی ساری بے تکلفی عود کر آئی اور بڑی بے تکلفانہ گفتگو ہوئی۔ ان کے حق میں  ہمارا تعلیمی نصاب بنانے والوں  کی پیش گوئی پوری ہوئی تھی کہ

 ”نوجوان مستقبل کا معمار ہوتا ہے“

اور یہ جناب محکمہ تعلیم کی ”خواہش “ کے عین مطابق آج کل”معماری“ کے پیشے سے وابستہ ہیں ۔کافی دیر ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد میں  نے جناب سے روز مرہ معمول کا پوچھا ۔موصوف کافی صاف گواور بلند آواز واقع ہوئے تھے ، سو، چنگھاڑ دار آواز میں  فرمانے لگے:

”بس یار،کیابتاؤں ، صبح پانچ بجے بیدارہوئے ،اس کے بعد نہادھو کر ناشتہ کیا اور کام پہ نکل جاگئے، اب بندہ اس قدر گرمی میں  اوّل تو روزہ رکھ ہی نہیں  سکتا اور دوم روزہ رکھ کے معماری کا کام تو ہرگز نہیں  ہوسکتا،سو، دن میں  صرف دو بار چائے اور ایک بار لنچ کیا،سہ پہر 2بجے کے قریب گھر واپس آگئے ،کچھ دیر سونے کے بعد دو بارہ نہایا اور پھر شام کو تمام خاندان کے ساتھ مل کر افطاری کی“

”افطاری؟؟“

 میرے منہ سے اضطراری طورپہ نکلا ۔

میں  نے اس کے بچپن کی طرح کے بے ہنگم بڑھے ہوئے بالوں  کو دیکھتے ہوئے کہا:

”لیکن تم تو کہہ رہے تھے نا کہ تم روزہ نہیں  رکھتے تو پھر افطاری ؟؟چہ معنی دارد؟“

جناب نے مجھے دیکھا اور بھر پور اندازمیں مسکرائے ،جیسے میں  نے کوئی سوال نہ پوچھا ہوبلکہ کوئی لطیفہ ان کے گوش گزار کیا ہو۔مسکرانے کے تکلف سے فارغ ہو کر جناب فرمانے لگے:

”یار،اب بندہ سحری نہ کھائے، روزہ نہ رکھے تو الگ بات ہے، اور اب اگر بندہ افطاری بھی نہ کرے تو کچھ عجیب عجیب سالگتا ہے۔بھئی ،اگر سحری نہ کھا پاؤ اور پھر اس وجہ سے افطاری بھی چھوڑ دو ،یہ تو کوئی بات نہ ہوئی،اگر کوئی سحری کھانے کی برکت اور روزہ رکھنے کے ثواب سے محروم رہ گیا ہو تو کیا وہ افطاری کی برکت سے بھی محروم ہوجائے؟؟؟“

٭٭٭

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے