Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

PSL 6 Recap

Psl, psl 6, psl 7, psl 2022, Pakistan super league, Pakistan super league 6, Pakistan super league 7, Pakistan super league 2022, psl 6 recap,  اردو نستعلیق، اردو فونٹ، جمیل نوری نستعلیق،
 

دراصل یہ بلاگ ہم نے پی ایس ایل (سیزن 6)کے فوراََ بعد لکھنے کا سوچا تھا ۔ چند اہم نوٹس بھی لکھ رکھے تھے۔ مگر سستی آڑے آتی رہی اور بلاگ نہ لکھا گیا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ جو بھی ہوتا ہے اچھے کے لیے ہوتا ہے ۔ تو اب سیزن 7 کی آمد آمد ہے اور اتفاق سے ہماری نظر پرانے نوٹس پر پڑ گئی۔ تو چلیے ! ذرا پچھلے سیزن پر جلدی سے طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔

مثبت عوامل:

آپٹی مسٹک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پہلے مثبت عوامل پر نگاہ ڈالتے ہیں۔

1.  لیگ کا مکمل ہوجانا

کوروناکے باعث لیگ کو عین پلے آف سے پہلے ملتوی کرنا پڑا گیا تھا ۔ بائیو سکیور ببل، کچھ کھلاڑیوں اور فرنچائزز کو بلاجواز رعایت دینے کی باتیں بھی ہوئیں مگر اس کے باوجود لیگ کا مکمل ہو جاناایک بڑی کامیابی تھی۔ تاہم اِس دفعہ انتظامیہ کو  بگ بیش سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں شریک ہر ٹیم کے چار چار، پانچ پانچ ارکان کے کورونا سے متاثر ہونے کے باوجود لیگ جاری ہے۔

2.  اوورسیز کھلاڑیوں کی بھر پور شرکت

لیگ میں غیر ملکی کھلاڑیوں کی بھرپور شمولیت رہی۔ تاہم دوسرے حصے میں کچھ کجی دیکھنے میں آئی۔جب چند معروف نام دستیاب نہ ہو سکے۔ اِمسال اوورسیز کھلاڑیوں کا پول وسیع کیے جانے کی خبریں ہیں۔ جو کہ خوش آئند فیصلہ ہے۔

3.  آؤٹ سورسنگ کی اچھی روایات

 آؤٹ سورسنگ کی اچھی روایت بھی ایک مثبت چیز تھی۔ میچز کی کوریج، لائیواسٹریم ،گرافکس سمیت  سوشل میڈ یا کوریج میں بھی پروفیشنل کمپینیوں پر انحصار کیا گیا ۔ اس دفعہ بھی یہی کیا جانا چاہیے۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

4.  ترانے کی بھرپور کامیابی

 اینتھم کی  وائرل کامیابی بھی مثبت عوامل میں سے ایک رہی۔ گائیکی میں نصیبو لعل اور ریپ بینڈ(Young Stunners) نے کمال کیا۔ گو، بہت سے لوگوں نے اِس پر اعتراض بھی کیا۔ مگر یہی آپسی کشمکش ترانے کی کامیابی کا سبب بن گئی۔ اس روایت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

منفی عوامل:

چلتے چلتے اُن نکات پر بھی بات کرلیتے ہیں۔ جہاں بہتری کی گنجائش تھی۔

1.  بائیو سکیور ببل کی خلاف ورزیاں

 کووِڈ پروٹوکولزکی مسلسل خلاف ورزیاں اور انتظامیہ کے مبہم رویے لیگ کوملتوی کرنے کا باعث بنے۔ کورونا کے حوالے سے ترتیب دیا گیا بائیو سکیور ببل بھی آؤٹ سورس کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پروفیشل ڈاکٹرز معاملات کی دیکھ بھال کریں۔اور خلاف ورزی پر کھلاڑیوں کے خلاف آزادانہ کارروائی کر سکیں ۔ پی سی بی کو چاہیے کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں اپنی اور فرنچائزز کی اَنا کو بیچ میں نہ آنے دے۔ کھیل اور صحت کو مقدم سمجھا جائے۔   

2.  آڈینس  شمولیت کی سرگرمیاں نہ ہونا

کوروناکے باعث بہت سارے میچوں میں آڈینس نہ آ سکی ۔لیکن انتظامیہ گھروں میں بیٹھے صارفین کی توجہ کے لیے نئے حربے استعمال نہ کرسکی۔یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پبلسٹی ایک مکمل کاروبار ہے۔ عوام کو مختلف سرگرمیوں، کوئز وغیرہ سے انگیج کر کے ہی لیگز کامیاب ہو  رہی ہیں۔ اِس دفعہ یہ معاملات تجربہ کار پروفیشنلز کےحوالے کرنے چاہیئں۔ گراؤنڈ اور گھر میں موجود آڈینس کو لیگ سے جوڑے رکھنے  کے لیے دِلچسپ سرگرمیاں پلان کی جانی چاہئیں۔

یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

3.  میدان میں کھلاڑیوں کے اسپانسرڈ ردّعمل

ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ شیمپو کے ایک برانڈ نے کھلاڑیوں کو وکٹ حاصل کے بعد بھی اپنا مخصوص سٹائل دہرانے کو کہا۔  یہ نہ صرف عجیب بلکہ بے حد معیوب بھی ہے۔ دُنیا بھر میں کرکٹ کو پراڈکٹ سمجھا جاتا ہے۔ ہر طرح کے اداروں سے اسپانسرشپس حاصل کی جاتی ہیں۔ مگر اُن کے لیے کھیل کو نہیں بگاڑا جاتا۔ تشہیر کے لیے گراؤنڈ کے اندر کھلاڑیوں کے ردّعمل پر انحصار کرنا سیزن 6 کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ تھا۔

4.  اُردو کمنٹری پینل کی بے مائیگی

سیزن 6 میں جہاں انگریزی میں چند نہایت اچھے کمنٹیٹرز شامل تھے۔ وہیں اُنہی میں سے کچھ سے اُردو کمنٹری کا کام بھی لیا جارہا تھا۔ کام کیا تھا بیگار ہی سمجھ لیں۔ طارق سعید کے علاوہ کوئی کمنٹیٹر بھی اچھا تاثر نہ چھوڑ سکا۔ یہ شعبہ پی ایس ایل کے آغاز سے ہی توجہ کا متقاضی ہے۔ انتظامیہ اگر خود آڈیشن نہیں لے سکتی تو کسی متعلقہ ایجنسی  سے ہی رابطہ کر لے۔

کھلاڑیوں کا مجموعی تاثر:

گزشتہ سیزن میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کی بات کی جا ئے توبابر اعظم اور صہیب مقصود نے عمدہ کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا۔ شاہ نواز دھانی اور محمد وسیم جونئیر چڑھتے سورج نظر آئے۔ دونوں نے بعد ازاں انٹرنیشنل  کیرئیر کا نہ صرف آغاز کیا بلکہ وابستہ  توقعات پر پورے بھی اُترے۔

چند کھلاڑی سیزن کے آغاز میں بجھے بجھے سے نظر آئے۔ تاہم وقت پر سنبھل گئے۔ ان سورماؤں میں محمد رضوان،  وہاب ریاض،  شعیب ملک، محمد عمران سینئر اور شان مسعود شامل ہیں۔ کچھ کھلاڑی چوپٹ بھی ہوئے۔ عامر، عماد وسیم، صائم ایوب، اخلاق، محمد حفیظ،سرفراز اور اعظم خان  خود سے وابستہ توقعات کو درست ثابت کرنے میں بُری طرح ناکام رہے۔ 

مقبول ترین بلاگ ملاحظہ فرمائیں:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے