Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ...

Haan to main keh raha tha k, Yes, I was saying that, Asad, Asad Mahmood, Comics, Urdu Comics, Columns, Urdu Columns, Urdu Columns today, Urdu Column Online, Urdu Column Javed Ch, Urdu Column daily, urdu column kaar, urdu column writers, urdu comedy jokes, urdu comic writers, Comic book column, Latest, 10K reviews, Best, Nelson Mandela, South Africa, War, English, Colony, War against English colonial system,

ہجوم دھاڑیں  مار کر رونے لگا۔اس کے تمام دشمن ششدر رَہ گئے ۔ وہ تو بلا کو سر سے اُتارنا چاہ رہے تھے لیکن محض ایک جملے نے ان کی امیدوں  پر پانی پھیر دیا۔23سال پہلے وہ جس اَن ہونی سے ڈر رہے تھے ۔ وہ اَن ہونی محض ایک فقرے کی مارنکلی…

ہوا یہ کہ یہ ملک بھی انگریزوں  کی بہت ساری کالونیوں  میں  سے ایک تھا۔ یہاں  سیاہ فام قوم رہتی تھی ۔انگریز حاکم تو تھے ہی  انہیں  اپنی گوری چمڑی کا بھی زعم تھا۔وہ اپنے سے پھیکے رنگ والے تمام لوگوں  کو سیاہ فام ہی گردانتے تھے اور پھر یہ تو وہ قوم تھی جس کا رنگ سیاہی کو مات دیتاتھا۔اور تو اور  ان کے بال بھی گھنگریالے تھے۔ وہ بھلا اِس قوم کو غلام کیوں  نہ سمجھتے۔ لیکن دُنیا کے تمام ظالم ظلم کرتے وقت بھول جاتے ہیں  کہ کائنات میں  جہاں  بھی کوئی عمل ہوتا ہے  اس کے جواب میں  کہیں  نہ کہیں  کوئی ردّ عمل ضرور وقوع پذیر ہوتا ہے۔بہرحال  یہ انگریزوں  کے ظلم کا آغاز تھا نہ اختتام۔ یہ تو بس روایت کی طرح سالوں  سے جاری تھا۔ہر دوسرے مظلوم ملک کی طر ح یہاں  بھی آزادی کی تحریکیں  شروع ہوئیں۔ پر ہتھیار اُٹھانے والے کبھی ان کا مقابلہ نہ کرپائے ۔ شاید اس لیے کہ ہتھیار اُٹھانے والے جلد بازہوتے ہیں ۔ وہ دہائیوں  کی غلطیاں  آخری حد تک جا کر لمحوں  میں  سدھارنا چاہتے ہیں  لیکن عشروں  میں  خامیاں  ٹھیک کر لینے کے انتظار کے متحمل نہیں  ہوتے۔

پُر مزاح ادبی وی لاگزسے   یہاں لُطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔

ہتھیار بندوں  کی جدوجہد جاری تھی کہ اُن میں  ایک حقیقی لیڈر نے جنم لیا۔ اس نے لڑائی کے بجائے سیاست کا میدان چنا۔ وہ عوام کو 'ورغلانے'کے کام پر جت گیا۔ عوام میں  سے کچھ نے بات سنی ۔ کچھ نے سنی اَن سنی کردی۔اُس نے خامیاں  سدھارنے کی بات کی۔طویل لڑائی لڑنے اور اخلاقی مار مارنے کا دَرس دیا۔ آہستہ آہستہ اس کے اِرد گرد ہجوم بڑھنے لگا۔حاکموں  کو خوف محسوس ہونے لگا۔ انہیں  لگاکہ ڈر کی جن بنیادوں  پر ان کی حاکمیت قائم ہے  وہ ٹوٹ گئیں  تو ساری سلطنت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔فیصلہ ہوا کہ غداری کے مقدمے میں  لیڈر کو گرفتار کر لیاجائے۔

لیڈر اایک پر ہجوم جلسے میں  شریک تھا ۔ لوگ لاکھوں  نہیں  پر ہزاروں  ضرور تھے۔وہ تقریر کررہا تھا کہ اچانک جلسہ گاہ کو سکیورٹی فورسز نے گھیرے میں  لے لیا اور اُسے ہزاروں  لوگوں  کے بیچ سے گرفتار کر لیا گیا۔ غداری کا مقدمہ چلنا شروع ہوا۔ 23سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا۔لیڈر نے جیل میں  جا کر بھی عوام کو جگانے کے لیے 'وَن لائنزر'پر مبنی بیانات کا سلسلہ جاری رکھا۔ہوتے ہوتے بات باقی دُنیا تک پہنچنے لگی۔حاکموں  پر لوکل اور بین الاقوامی دباؤ بڑھنے لگا۔ انہوں  نے گھبرا کر لیڈر کو محفوظ راستہ دینے کا سوچا۔ لیڈر کو جب 23سال جیل کاٹنے کے بعد رِہائی کا بتایا گیا تو اُس نے مطالبہ کیا کہ اگرتو اُسی میدان میں  ویسا ہی جلسہ ہو اور مجھے جیل سے سیدھا سٹیج پر لے جایا جائے توہی میں  رِہائی کے لیے تیار ہوں گا ۔ حاکموں  کو قیدی کے اس' حکم 'پر تامل تھا لیکن کئی طرفہ دباؤ کے ہاتھوں  مجبور تھے ۔ سو،  اس کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

مزید دِل چسپ بلاگ :

اے پی سی

بھونڈی

ایسا ہی ہوا۔23سال بعداسی گراؤنڈ میں  جلسہ سجایا گیا۔اب کی بار لوگوں  کی تعداد ہزاروں  کے پیٹے سے کہیں  زیاد ہ تھی ۔ لیڈر کو وہیں  جلسہ گاہ میں  ہی پولیس وین سے نکالاگیا۔لوگوں  نے دیکھا کہ نوجوان لیڈر بوڑھا ہوچکا تھا۔ اس کے گھنگریالے بال سفید ہو چلے تھے ۔ وہ دھیمے قدموں  سے سٹیج پر پہنچا ۔ مائیک پر گیا ۔ ایک دَم لیا اور پھر بولا۔''ہاں   تو میں  کہہ رہاتھا کہ… ''بس اُس کا اِتنا کہنا تھا کہ ہجوم دھاڑیں  مار کر رونے لگا ۔ حاکموں  نے اپنا سر پیٹ لیا ۔ تمام دشمن ششدر رَہ گئے ۔ وہ تو بلا کو سر سے اُتارنا چاہ رہے تھے لیکن محض ایک جملے نے ان کی امیدوں  پر پانی پھیر دیا۔ربع صدی پہلے وہ جس اَن ہونی سے ڈر رہے تھے ۔ وہ اَن ہونی محض ایک فقرے کی مارنکلی۔ محض ایک جملے نے سیاہ فام قوم کی آزادی کا اعلان کردیا۔لیڈرنے وہیں  سے تقریر کا آغاز کیا تھا  جہاں  23برس پہلے اُس نے چھوڑی تھی۔

دنیا نے صرف ایک فقرہ یاد رکھا لیکن مت بھولئے کہ'نیلسن منڈیلا'کے اس ایک جملے کے پیچھے اس کی دہائیوں  کی ریاضت اور مشقت شامل تھی۔ اسے یہ ایک فقرہ کہنے کے لیے 23سال جیل سہنا پڑی اور اس سے کہیں  زیادہ عرصہ ایک عام شخص کے طور پر حاکموں  کا ظلم بھی۔معجزے دنیا میں  ہی ہوتے ہیں لیکن یاد رکھئے معجزے دِنوں  میں  نہیں  ہوا کرتے۔

مزید پڑھیے:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

بات پہنچی تیری جوانی تک

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے