Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

بارود کے ڈھیر پہ پھول

Ind, SA, Cricket, Cricket Match, WC, Ind Vs SA, imagery, barood k dhair pe phool, two nation theory, do qaumi nazria, nawaiwaqt columns, daily jang columns, sohail warraich urdu columns, express columns, columnist, independent urdu, asad Mahmood, dunya newspaper, javed ch latest column, sohail warraich columns, fifth column, adventure, Asad, Columns, Urdu, Urdu Columns, Comics, Urdu Comics, Comedy, Urdu Comedy, urdu column kaar, urdu column today, urdu column daily, columnist, column ghar, column writing, funny columns, funny columns in urdu,funny column ideas, funny column names, funny column titles, funny column writers, funny column examples, urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn editorial, اسد، محمود، اسد محمود، اردو، کالم، اردو کالم، مزاح، اردو مزاح، جاوید چودھری، عطاالحق قاسمی، ابنِ انشاء، پطرس بخاری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمٰن، دو قومی نظریہ، بھارت بمقابلہ جنوبی افریقہ، کرکٹ میچ، بارود کے ڈھر پہ پھول، دو قومی نظریہ،

یہ 2اکتوبر کی ایک سہانی دوپہر تھی۔پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں  چہل پہل عروج پر تھی۔پاکستان کرکٹ ٹیم کو ٹی۔ٹونٹی ورلڈکپ میں  اپنے گروپ کی ٹاپ آسٹریلیا سے اپنی بقاکی جنگ لڑنا تھی۔میچ پاکستانی وقت کے مطابق 3سہ پہرشروع ہوناتھا۔نمازِظہرکے بعد ہی سے کرکٹ کے دلدادہ حضرات ہاسٹلز کے ٹی۔وی رومز میں  براجمان ہو چکے تھے۔میچ شروع ہواتو ٹی۔وی رومز میں  تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔طلبہ تھے کہ دروازوں  سے جھانک رہے تھے۔میچ میں  پاکستان کی کارکردگی کافی بہتر رہی اور میچ بآسانی 32رنز سے پاکستان نے جیت لیا۔اس کے ساتھ ہی خوشی کی ایک خوش کُن لہر غیر محسوس انداز میں  چہار جانب پھیل گئی لیکن یہ خوشی مکمل نہیں   تھی۔ابھی سب کو انتظار تھااگلے میچ کاجوکہ جنوبی افریقہ اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں  کے درمیان کھیلا جانا تھا۔بھارت کی ٹیم اگر 31رنز سے میچ جیت جاتی تو پاکستان کی جگہ وہ سیمی فائنلز کے لیے کوالیفائی کر لیتی۔

جنوبی افریقہ اور بھارت کا میچ 7بجے شام کو شروع ہونا تھا۔ہاسٹلز کے دالانوں  میں  دلآویز شام اُتر چکی تھی ۔پرندوں  کی آخری ڈاریں  بھی اِک ایک کر کے واپس لوٹنے میں  مگن تھیں ۔یونیورسٹی ہاسٹلز میں  محفلیں  دوبارہ جم چکی تھیں ۔اُدھر میچ چلنا شروع ہوااور اِدھر نگاہیں   سکرینوں  پہ تو دعائیں  ہونٹوں  پہ تھیں ۔بھارت کی شکست کی دعائیں (یاشاید بد دعائیں ) تھیں ۔بھارت نے اس میچ میں  پہلے بلے بازی کی ۔بھارتی اوپنر بلے باز نے چند اچھے شارٹس کھیلے۔اِدھر ٹی۔وی رومز میں  نعرے بلند ہوئے:

"میچ فکس لگتاہے"

دو تین اورز کے اعصاب شکن انتظارکے بعد بھارت کی پہلی وکٹ گری۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لیے دادو تحسین کے نعرے بلند ہوئے۔اس کے بعد یہی ہوتا رہا کہ کوئی بھی چوکا یا چھکا لگنے پر اظہارِافسوس ہوتا تو کبھی وکٹ گرنے پر خوشی و مسرّت کا بے پایا ں  اظہار۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

بھارت نے 20اوورز میں  152رنز بنائے ۔جنوبی افریقہ کے لیے 153رنز کا ہدف تھا لیکن پاکستان کی لائف لائن 121رنز تھے یعنی بھارت کو سیمی فائنل میں  رسائی کے لیے لازمی جنوبی افریقن ٹیم کو 121رنز یا اس سے قبل آٹ کرنا تھا۔جنوبی افریقن اننگز کا آغاز یوں  ہوا کہ محض دوسری ہی گیند پر اوپنر ہاشم آملہ پویلین سدھار گئے۔ٹی۔وی سکرینز کے سامنے براجمان تماشائیوں  نے پھر کچھ ناقابلِ اشاعت جملے جنوبی افریقن ٹیم کے حق میں  بلند کیے۔جب 16رنز پہ دوسری اور30رنز پہ تیسری وکٹ گری توہر شخص کو یقین ہونے لگاکہ

 ”میچ فکس ہے“

لیکن جنوبی افریقن مڈل آرڈر بلے باز”فان ڈوپلیسس“نے تیس ،چالیس منٹ کے کھیل میں  میچ کا پانسہ ہی پلٹ دیا۔اب ایک مرتبہ پھر ہاسٹلز کے ٹی۔وی رومز میں  تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔اب بھی نظارہ وہی تھا جو اس سے قبل کھیلے گئے پاکستان اور آسڑیلیا کے میچ کے دوران تھا بلکہ اس سے کچھ سِوا تھا۔80کے قریب رنز بن چکاتھااور اب تماشائی ہر گیند پر جنوبی افریقن کھلاڑیوں  کو دل کھول کر داد دینے میں  مصروف تھے۔ٹی۔وی اسکرینز پر جب بھی بھارتی کھلاڑیوں  اور تماشائیوں  کے مرجھائے ہوئے چہرے آتے،نعروں  کا ایک طوفانِ بد تمیزی برپاہوجاتا۔فقرے اور آوازے برابر کَسے جارہے تھے۔

تھوڑی تگ و دو کے بعد جنوبی افریقن بلے باز 121رنز کا”ہدف“عبور کر گئے۔بس پھر کیا تھا، منچلے نوجوانوں  نے ٹی۔وی اسکرینز کے آگے ہی بھنگڑا ڈالنا شروع کردیا۔آخری گیند تک یہ مقابلہ بھی دیکھاگیا،بدقسمتی سے جنوبی افریقہ ایک رَن کے فرق سے یہ میچ ہار گیا۔ بعد میں اسی میچ پر وہ مشہورِ زمانہ میم(Meme) بنی کہ

"ایک دفعہ  بھارت اور ساؤتھ افریقہ میں میچ ہو رہا تھا اور آخرمیں پاکستان جیت گیا "

میچ کے بعد گرنڈز اور ٹی۔وی اسکرینزکے سامنے مناظر دیدنی تھے۔ادھوری خوشی ،مکمل خوشگوار احساس بن کر غیر محسوس اندازکُن انداز میں ہر کسی پہ طاری ہوئے جارہی تھی اورہاسٹلز میں پُرسکون رات نے ڈیرے ڈال دیئے تھے۔

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہ دو میچز کا آنکھوں  دیکھا حال تھا،جو میں  نے صرف اس وجہ سے بیان کیاہے کہ آج کے نام نہاد دانشوروں  کو بتادوں  کہ بھارت ہمارا روایتی اور ازلی حریف ہے۔تم دو قومی نظریئے کو چاہے کتنا ہی جھٹلا لو۔ہر اہم واقعے کے بعد یہ ظہور پذیر ہوتا رہے گا۔اپنے وجود کا احساس دلاتارہے گا۔بات یہیں   ختم نہیں   ہوتی ،ایگریکلچر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی مقبوضہ کشمیرمیں  کشمیری مسلمان طلبہ نے پاکستان ٹیم کے سیمی فائنل میں  کوالیفائی کرنے اور بھارت کے ہارنے پہ جشن کاسا سماں  بن گیا۔مسلم طلبہ نے پاکستان کے حق میں نعرے بلندکیے۔ہندو طلبہ اس پہ بپھر گئے اور مسلم طلبہ پہ حملے کی کوشش کی۔مندرجہ بالا واقعات کے تناظر میں  ،مَیں نام نہاد دانشور طبقے سے پوچھنا چاہتاہوں کہ کیا انہیں   نظر نہیں   آتا کہ یہ سب کیا ہے؟کیا یہ اُن کے منہ پہ ایک طمانچہ نہیں   ہے ،یہ واضح اشارہ نہیں   ہے ان کے لیے، جو اپنے ذاتی خیالات کو اس قوم کا اجتماعی مقدر بنانے کی کوشش میں  اس خطے کے معروضی حالات بھول جاتے ہیں  ، وہ ہندو کی ازلی نیچ ذہنیت کو بھول کر دیتے ہیں  ۔وہ اُن دس لاکھ شہداءکو فراموش کر دیتے ہیں   جنہیں   ہندو بنیئے نے پاکستان بنانے کی سزا کے طور پہ اس مٹی کی بنیادوں  میں  دفن کر دیاتھا۔اگردو قومی نظریہ اَن مٹ نہ ہوتاتو 1971ءکے خون آشام پس منظرمیں  اندراگاندھی کو طنزاََ یہ نہ کہنا پڑتا کہ

”آج ہم نے دو قومی نظریئے کو بحیرہءِ عرب میں  ڈبو دیا ہے“

 23مارچ 2011ءکو شیرِبنگلہ اسٹیڈیم بنگلہ دیش میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے مابین کرکٹ ون ڈے ورلڈ کپ کا سیمی فائنل تھا۔بنگالی،پاکستانی ٹیم کی شرٹس زیبِ تن کیے،پاکستانی پرچم اُٹھائے ، نعرے لگا رہے تھے۔پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں ویسٹ انڈیز کی شکست کو انہوں نے اپنے زخموں کا مرہم جاناکیونکہ ویسٹ انڈیز نے چند روز قبل بنگلہ دیش ٹیم کو شکست دے کر ورلڈ کپ سے باہر کر دیاتھا۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

 24یا25مارچ کوایک دو مشہور کالم نگاروں  کا کہناتھا کہ

”23مارچ کو شیر بنگلہ اسٹیڈیم میں  بنگالیوں  کا پاکستانی ٹیم کے لیے والہانہ پن دیکھ یہ محسوس ہورہاتھا کہ دوقومی نظریہ ایک مرتبہ پھر بحیرہءِ عرب سے اُبھر رہاتھا“

آج میں  دوقومی نظریئے کے محافظوں  کو یہ خوشی خبری سناتا ہوں  کہ وہ دو قومی نظریہ جسے اندرا گاندھی کو بحیرہءِ عرب میں  ڈبو دینے کازعم تھا۔وہ پاکستان کے ہر طالب علم اور ہر باشعور انسان کے رَگ و پے میں  سرایت کر گیا ہے۔اگر کسی کو میر ی بات کا یقین نہ ہو تو وہ سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر جا کر دو تین دن پہلے کے کمنٹس(Comments)کا جائزہ لیں  ۔انہیں   تسلی ہوجائے گی اور رہی بات ”روشن خیال“دانشوروں  اور سیاست دانوں  کی ،جوکبھی دوقومی نظریئے کی مخالفت کرتے ہیں  ،کبھی سرحد کی ”لکیروں “کو مٹانے کی بات کرتے ہیں   ۔ انہیں   قائد ِاعظمؒ کے اس فرمان کو یاد رکھناچاہیے۔

"مذہب،طرزِ معاشرت ،رہن سہن کے طور طریقے ، غرضیکہ ہر چیز میں  مسلم اور ہندو الگ الگ قومیں  ہیں   ،صرف ووٹ ڈالنے کی صندوقچی میں  ہندو مسلم اکٹھے نہیں   ہو سکتے“

اور اُن کا یہ کہا بھی اپنے پلو سے باندھ لیں  کہ

"پاکستان تو اُسی دن وجود میں  آگیا تھا جس دن ہندوستان کا پہلاہندومسلمان ہوا تھا"……

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے