Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

مرزا صاحبہ - اَن ٹولڈ اسٹوری

 Mirza Sahiba- The Untold Story, Urdu Column, Comics, Asad Mahmood, Mehro, Mirza Sahiba, Logic, Love, Wisdom, Folk story, Logical Reasoning, Love Story

صائمہؔ مظفر گوندل کا ایک شعر ہے کہ

یاد تمہاری ،اپنی انا، دنیا کا غم اورتنہائی

اکثر ایک تصادم سا ہو جاتا ہے ان چاروں  میں

اب ہم اتنے زیادہ تصادم کے تو متحمل نہیں  ہو سکتے لیکن پھر بھی کبھی کبھی دل و دماغ میں  کسی بات پر ٹھن جاتی ہے ۔لیکن ہم خود دِل اور دماغ کی اس جنگ میں  شریک نہیں  ہوتے بلکہ جون ایلیا کے ایک شعری مشورے کے پیشِ نظر ان دونوں  کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں ۔ اور خود سکون سے اس جھڑپ سے لطف اندوز ہوتے ہیں  ۔اور آخر میں  اگر ضروری سمجھیں  تو مناسب سا فیصلہ صادر کر کے ہر دو فریقوں  کا منہ بند کرادیتے ہیں ۔ کچھ دن پہلے بھی یونہی ہوا۔وجہ یہ تھی کہ کسی ٹی وی شو میں  سن لیا کہ صاحبہ نے مرزا کے تیر کیوں  توڑ دیئے تھے۔

مقبول ترین بلاگ یہ رہے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

دماغ کو اس معاملے میں  دل پر واضح فتح نظر آئی تو اس نے اودھم مچا دیا۔ ہم دل کی مضمحل صورتحال سے باخبر تھے لہٰذا اس کو شاطردماغ سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن دماغ نے ایک نہ مانی اور گول میز بچھوا کر رہا۔ اب ہم محض تماشائی تھے ۔تماشہ جو ہوا، وہ حسب ِ ذیل ہے:

دماغ نے چھوٹتے ہی سوال داغا کہ

'اجی صاحب!  بتائیے تو صاحبہ نے مرزا کے تیر کیوں  توڑ دیئے تھے؟'

دل نے پہلو بچانے کی کوشش کی :

'اس لیے کہ اسے خطرہ تھا کہ اگر مرزا کے پاس تیر ہوئے تو اس کے پانچوں  بھائی مارے جائیں  گے'

دماغ نے دل کی دلیل ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے الزام لگایا:

 'تو کیا یہ عشق کے ساتھ غداری نہیں  تھی'

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

دل بیک فٹ پر آگیا:

'کہہ سکتے ہو ، لیکن اگر صاحبہ کو مرزا سے عشق تھا تو بھائیوں  سے بھی محبت تو تھی نا'

دل کے بیک فٹ پر ہونے کی وجہ سے دماغ کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا اور وہ پھبتیاں  کسنے پر اُتر آیا:

'تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اکیلے مرزا کے مقابلے میں  پانچ بھائیوں  کی محبت 'مقدار'میں  زیادہ ہونے کی وجہ سے جیت گئی؟'

دل نے اس ستم ظریف کی مسخرہ بازی کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مناسب سا جواب دیا:

 'کہہ سکتے ہو، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس نے ایسا بھائیوں  کی زیادہ مقدار ی محبت کے لیے کیا یا پھر مرزاکی بلا کی نشانے بازی سے ڈر کر'

اس سے دماغ کو مزید شہ ملی اور اس نے ایک اور حملہ کیا:

'کچھ بھی ہو،پر اکیلے مرزا کو پانچ بھائیوں  کے مقابل نہتا کرنا کیا کہلائے گا'

اِسے کم ازکم چار تیر تو سلامت رکھنے چاہئیں  تھے تاکہ مقابلہ برابر ی کی سطح کا ہو سکے'

دل تھوڑا سا جز بر ہوگیا:

'تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ مرزا اس کے چار بھائیوں  کو مار دیتا تو پھر مقابلہ برابری کا ہوتا'

دماغ نے ہاتھ نچائے:

'ہاں !ہاں ! تم خود ہی تو ہر بات میں  'کہہ سکتے ہو' کہہ رہے تھے، کیا میں  ایسا نہیں  کہہ سکتا؟'

دل فارم میں  واپس آنے لگا:

'نہیں  !تم ایسا نہیں  کہہ سکتے ۔ کیونکہ اگر صاحبہ کو بھائیوں  سے ہی زیادہ محبت ہوتی تو وہ کبھی مرزا کے ساتھ نہ بھاگتی'

دماغ نے دل کو چاروں  شانے چت کرنا چاہا:

'تو پھر اُس نے مرزا کو مروا کر خود کو رُسوا کیوں  کیا؟'

دل نے ایک لازوال جملہ کہا اورپاکیزہ محبتوں  کو اَمر کردیا:

 'اس لیے کہ وہ نہیں  چاہتی کہ ان کی محبت کی وجہ سے کسی کا خون ہو، محبت جان دینا جانتی ہے، جان لینا نہیں '

دماغ اس قدر پر زور دلیل پر منہ کی کھا کر رَہ گیا ۔

 ہم نے دِل کے حق میں  فیصلہ سنایا اور صائمہؔ مظفر گوندل کی اسی غزل کا ایک اور شعر گنگنانے لگے۔

گھنٹیوں  جیسی ایک مدھرآوازتھی آئی کانوں  میں

تب سے گرجا گھر کا چکر لگتا ہے اتوارو ں  میں

شرطیہ مٹھے بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے