کافی
دنوں بعد یونیورسٹی کی چھٹیاں ختم ہوئیں تو بہت برا لگا کیونکہ گھر چھوڑ کر کہیں جانا اور وہ بھی پڑھنے کی غرض سے کم ہی لوگوں کو اچھا لگتا ہے اور خوش قسمتی سے میں ان سے میں سے ایک نہیں ہوں ۔یونیورسٹی پہنچے تو دھیان بٹانے کے لیے کسی
انوکھی چیز کی جستجو ہوئی ۔ اور جب کچھ نہ ملا تو لائبریری جاپہنچا ۔یونیورسٹی کے
دوسرے فلور پر واقع 'شعبہ علوم شرقیہ'سے میری کافی پرانی آشنائی ہے ۔یہاں کے اُردو حصے میں رکھا 'مزاح سیکشن'میں تقریباََ چاٹ چکا ہوں ۔لیکن اس بار کسی سنجیدہ چیز
کی طلب سی محسوس ہورہی تھی۔لہٰذا میں زیادہ
دُور جانے کے بجائے قریب ہی واقعNew Arrivals کے ریکس کی طرف مڑ گیا جہاں پہ نئی آنے والی کتب اور رسائل رکھے ہوتے ہیں ۔
وہاں
پہ سرسری نظر ڈال کے پلٹے لگا تو 'نئی ادبی
جہتیں 'نامی کتاب نظر پڑی۔مصنف کا نام 'ڈاکٹر طارق عزیز' درج تھا۔ پہلا خیال جو میرے
ذہن میں اُبھرا وہ یہی تھا کہ یہ 'نیلام
گھر'والے طارق عزیز ہیں جنہیں کسی یونیورسٹی نے اعزازی ڈگری دے دی ہے۔اب جانے
میں کتاب کے عنوان سے زیادہ متاثر تھا یا
طارق عزیز صاحب سے کہ کتاب اُٹھائی اور اس کی ورق گردانی شروع کردی۔کتاب کے سنِ
اشاعت پہ نظر پڑی تو لائبریری کے منتظمین کی 'چھترول'کا دل کیا کیونکہ 2008ء میں شائع ہونے والی کتاب 2015ء میں New Arrivalsکے
ڈیسک پر پڑی تھی ۔
کتاب
کی اُلٹ پلٹ کے دوران فلیپ پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ یہ طارق عزیز اصلی پی ایچ
ڈی ڈاکٹر ہیں ۔اور 80اور 90ء کی دہائی میں
پی ٹی وی کے لیے بے شمار ہٹ ڈرامے تخلیق
کر چکے ہیں ۔بلکہ 90کی دہائی میں تو 'بہترین
ڈرامہ رائٹر'کاشاید ہی کوئی ایسا ایوارڈ ہو
جوانہیں نہ ملا ہو۔مضامین کی فہرست
دیکھی توکتاب مجھے بھا گئی اور میں اسےایشو(
Issue)کرا لایا۔اور جب پڑھنا شروع کیا تو لائبریری منتظمین کی
'چھترول'نہ صرف معاف کردی بلکہ انہیں اس
غلطی پہ داد بھی دینے کا سوچا کیونکہ اگروہ ایسا نہ کرتے تو میں ایک بہترین کتاب پڑھنے سے محروم رہ جاتا۔
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
یہ
کتاب تحقیقی اور تنقیدی مضامین پر مبنی تھی لیکن اندازِ تحریر اور زبان ایسی شستہ
تھی کہ کہیں سے بھی اس نوع کی دیگر کتب کی
مثل معلوم نہیں ہوتی تھی۔ایک اور عمدہ بات
یہ بھی تھی کہ ریفرینس کے نام پہ دس دس پندرہ پندرہ دوسری کتب کے صفحات شامل نہیں تھے ۔ جیسا کہ ہمارے ہاں کے تنقید نگاروں کا خاصا ہے ۔بلکہ ہر مضمون انتہائی مدلل اور
جامع تھا ۔ 4سے 5صفحات میں ہر مضمون پر سیر
حاصل بات کی گئی تھی البتہ ریفرینس کے لیے ہر مضمون کے آخر میں استفاد ہ شدہ کتب کے نام پتے درج تھے ۔یہ انداز
جدید ریسرچ کے عین مطابق ہے جس کی پروا ہمارے ہاں عموماََ نہیں کی جاتی ۔لیکن اسی بات نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کو
بہترین بنا دیاتھا۔ہر مضمون ہی اپنی مثال آپ تھا لیکن مجھے سب سے عمدہ مصنف کی
اختراعی سوچ لگی کیونکہ نئے پن کے ساتھ وہ کہیں بھی Confusedمعلوم
نہیں ہوتے بلکہ ہر شعبے سے متعلق اپنی ایک
پختہ رائے رکھتے ہیں ۔کتاب کے چند نمونے ملاحظہ ہوں ۔
ڈاکٹر
طارق عزیز'دسترس کی دُوری'پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے مصنف سعید ظفر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
''سعید ظفر کی شاعری میں رومانویت کی بجائے عصری عذابوں کا شعور زیادہ گہرا ہے ۔ ان کا فکری نظام واضح
طور پر دوجہتوں میں بٹاہوا ہے ۔ایک جہت کا تعلق انسان کے اپنے جیسے
انسانوں کے ساتھ رشتے کی بنیاد پر استوار
ہے جبکہ دوسری جہت کا تعلق انسان اور اس پر حکومت کے ذریعے جبر کرنے والے دوسرے
انسانوں سے ہے۔یہ دونوں جہتیں ریل
کی دو متوازی پٹڑیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتی
ہیں لیکن کئی مقام ایسے بھی آتے ہیں جہاں یہ
دونوں لائنیں ایک دوسرے کو کراس کرتی ہیں یا ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتی ہیں ۔تب ایک حادثہ رونما ہوتا ہے ۔
ایک حادثے ہی کے نتیجے میں یہ دنیا معرضِ
وجود میں آئی تھی۔حادثہ جہانِ نو تخلیق
کرتا ہے۔حادثہ سوالات کو جنم دیتا ہے ''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
ڈاکٹر
صاحب بات کرتے ہوئے کڑی سے کڑی ملاتے چلے جاتے ہیں اوریوں ایک ماہرمصور کی طرح منظر کی مکمل عکاس
تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں ۔مثلاََ 'آغا
سہیل کی افسانہ نگاری 'نامی فیچر میں یوں رقمطراز ہیں :
''کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ ہر بات جھوٹ لگتی ہے ہرشئے تبدیل ہوتی
ہوئی ۔چیزوں کی بنیادی ماہیت ہی پر شک
گزرنے لگتا ہے۔انسان سوچتا ہے ۔ کیا معلوم جسے میں میز سمجھتا ہوں وہ کرسی ہو ۔یا صدیوں پہلے کسی نے کرسی کا نام میز رکھ دیاہواور میز
کا کرسی۔اور جو گم ہے وہ گم نہ ہو صرف چھپ گیا ہو ہماری بے بسی اور تلاش پر ہنسنے کے لیے ۔سارا
منظر غیر حقیقی ہوجاتاہے ۔پیاس، پانی، پناہ سب ایک سے لگتے ہیں ''
ڈاکٹر
طارق عزیز کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ چیز کی بلاوجہ حمایت یا مخالفت نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بات سچی ، دوررَس
اورکاٹ دار لگتی ہے ۔'دست شناسی__ گمان یا حقیقت 'نامی تخلیق میں وہ کسی بھی علم کی تعظیم کے حوالے سے کیا عمدہ
زاویہ تراشتے ہیں:
''ممکن
ہے ہاتھ پر کھنچی ہوئی یہ علامتیں ذہن میں
پکنے والے ارادوں کا ہی عکس ہوں اور نامعلوم میں نہاں تقدیر کے رازوں کا سراغ دیتی ہوں ''
اور
اس نظرئیے کے ساتھ ہی وہ تحقیق کا وہ درس دیتے ہیں جس پہ علم کی عمارت قائم ہے :
''نسلِ
انسانی اگر ہاتھوں پر موجود علامات اور لکیروں
کو ایک تحریر کا درجہ دے کر اسے پڑھنا
اورنامعلوم تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہے۔کوئی بھی علم ہو اس پر شکوک و شبہات ظاہر کرنے کی بجائے اسے مزید
آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے آج جو
بات امکانات کی حیثیت رکھتی ہے کل وہی حقیقت
کا درجہ اختیار کرلے۔''
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
'نئی ادبی جہتیں ' میں سے یہ
چندٹکڑے پیش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس
کتاب میں بس یہی چند نئی جہتیں ہیں ۔میں
یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مصنف نے اس کتاب کے ہر صفحے پر کوئی نہ کوئی
ایسی بات ضرور لکھی ہے جسے ہم چونکادینے والی اور انکشاف انگیز قرار دے سکتے ہیں ۔لیکن
ایک کالم میں ان سب کی تلخیص کرنا ممکن نہیں
۔سو کالم کے آخر میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب میں ہی موجود ایک نظم بعنوان'رحمتیں ' شامل کرتے ہیں
جو اس قدر عمدہ ہے کہ بس کچھ نہ پوچھئے۔
اس نظم کو مصنف نے 'سید معراج نیّر اور فنِ ترجمہ نگاری'نامی فیچر میں شامل کیا ہے ۔شاعر ہیں جارج ہاربٹ اور ترجمہ نگار سید معراج نیّر۔
وقت
ِ تخلیق کائنات اس نے
جامِ
رحمت قریب رکھا تھا
پہلے
طاقت عطا اسے کرکے
حسن
ٹپکایا عقل سے پہلے
بخشی
پھر اس کو عزت و راحت
جام
ہونے لگا تھا جب خالی
روک
کر ہاتھ اس نے سوچاتھا
اس
میں بس اب سکوں ہی باقی ہے
اس
لیے بے سکوں ہی رہنے دوں
تاکہ
یہ جب کبھی بھٹک جائے
آ
کے حاصل کرے سکوں مجھ سے
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے