Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

پامسٹری

urdu poetry, urdu stories, urdu kahani, urdu columns, urdu columns today, urdu columns daily, urdu columns of hassan nisar, urdu columns of orya maqbool jan, urdu columnist job, urdu colors, urdu columns javed ch, urdu columns hamid mir, columns pk, dawn urdu, dawn leaks, dawn editorial, poetry urdu, poetry pics, poetry foundation, poetry love, poetry sms, poetry quotes, poetry out loud, poetry sad, shayari in urdu, shayari love, shayari in urdu sad, shayari love urdu, shayari pic, urdu poetry, urdu sad poetry, urdu love poetry, urdu poetry sms, urdu poems, poetry images, poetry about love, shayari hindi, biography, ghazal, kavita, kavi summelan, mushaira, Urdu Fun Stories, Hindi Fun Stories, Palmistry, Asad, Asad Mahmood,

ہاتھ دیکھنے کو پامسٹری کہتے ہیں ۔ہاتھ دیکھناکیسا ہے؟ ہم اس پر زیادہ بات نہیں  کریں  گے کہ یہ جھگڑے کی باتیں  ہیں  اور ایک کالم نگار کو جہاں  تک ہوسکے' ایسے معاملات سے پہلو بچانا چاہیے۔ہم صرف یہ دیکھیں  گے کہ پامسٹری سے متعلق اردوادب کا رویہ کیسا ہے۔ یادرہے کہ یہاں  'اُردو ادب 'سے مراد ہمارا ذاتی مطالعہ ہے' جو چھوٹی کاروباری کمپنیوں  کے حصے داروں  کی طرح بے حد محدود ہے۔

سب سے پہلے تواس ضمن میں  ڈاکٹر طارق عزیز کی کتاب 'نئی ادبی جہتیں 'میں  سے 'دست شناسی __گمان یا حقیقت 'نامی مضمون کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے ۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے ۔

''ممکن ہے ہاتھ پر کھنچی ہوئی یہ علامتیں   ذہن میں  پکنے والے ارادوں  کا ہی عکس ہوں اور نامعلوم میں  نہاں  تقدیر کے رازوں  کا سراغ دیتی ہوں '' ۔نسل انسانی اگر ہاتھوں  پر موجود علامات اور لکیروں  کو ایک تحریر کا درجہ دے کر اسے پڑھنا اورنامعلوم تک رسائی حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ اس کا حق ہی نہیں  بلکہ فرض بھی ہے۔کوئی بھی علم ہو  اس پر شکوک و شبہات ظاہر کرنے کی بجائے اسے مزید آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ ہوسکتا ہے  آج جو بات امکانات کی حیثیت رکھتی ہے  کل وہی حقیقت کا درجہ اختیار کرلے''

اس توبہ شکن فلسفے کے بعد ضروری ہے کہ آپ کوکوئی دلچسپ واقعہ بھی سنایا جایا ۔ورنہ ہوسکتا ہے کہ آپ طیش میں  کالم کا بائیکاٹ ہی کردیں ۔

ایک نظر اِدھر بھی:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

یہ اپنے کرنل محمد خان ہیں  جو 'بسلامت روی 'میں  انگلستان کی سیر کی روداد سنا رہے ہیں ۔وہاں  یونیورسٹی میں  ایک تقریب کے دوران ان کی ملاقات کسی شوخ طالبہ سے ہوئی ، جو انہیں  دست شناس (پامسٹ)سمجھ بیٹھی۔ باقی احوال کرنل صاحب کی کھٹ مٹھی زبان میں  سنیے:

''اس نیک بخت نے اپنا بازوہمیں پکڑایااور ساتھ کے کمرے میں  لے گئی۔ہمیں  صوفے پر بٹھاکر اپنا ہاتھ ہمارے زانوپر رکھ دیا۔ پھرکسی قدر اشتیاق بھرے انداز میں  ہماری آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر بولی:

 'میں  ایک مدت سے پاکستانی پامسٹ سے ملنا چاہتی تھی ۔ یہ بڑی اچھی قسمت بتاتے ہیں '

'آپ کو کسی پاکستانی پامسٹ کا تجربہ ہے؟'

'ہاں ، ہاں  ! میری سہیلی الزبتھ کا ہاتھ بھی ایک پاکستانی ہی نے دیکھا تھا اور اسے قسمت کا حال صحیح بتا دیا تھا۔ حتیٰ کہ تھوڑے ہی دنوں  میں  اس کی شادی بھی ہو گئی '

'کس کے ساتھ؟'

'اسی پاکستانی کے ساتھ'

ہم نے اپنے ہم وطن کو دل ہی دل میں  شاباش دی اورسرخ پوش طالبہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں  لے لیالیکن اپنے ہم وطن کے نقش قدم پر چلنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہ تھا یا یوں  کہیں  کہ توفیق نہ تھی لہٰذا منجھے ہوئے نجومیوں  کی طرح سب سے پہلے اپنے معمول کا یہی مغالطہ دُور کیا اور ایک مدت تک ہاتھ پر نظر جمائے رکھنے کے بعد ایک پر اسرار آواز اور لے میں  کہا:

 'اے لڑکی!تیری قسمت میں  پاکستانی نہیں  لیکن غم نہ کر'

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

'تو پھر کون ہے ؟'

لڑکی نے جائز مطالبہ کیا۔

'ایک لمبے بالوں  والا شہزادہ جو تمہاری طرف چل پڑا ہے'

'شہزادہ؟ اوئی !کہاں  سے ؟'

ہم نے آنکھیں  بند کرکے ہاتھ لہرایاجس سے تقریباََ چاروں  سمتیں  ظاہر ہوتی تھیں  اور اس کی نگاہ میں  اگر کسی طرف کوئی شاہزادہ تھا تو اپنی پسندیدہ سمت چن سکتی تھی۔

'کب آئے گا؟'

اس سوال پر معاََ ہمیں  وہ شعر یاد آیا جس میں  غائب یار سے ملاقات کا مثالی ٹائم ٹیبل درج ہے۔

میرا ہاتھ دیکھ برہمنا' میرا یار مجھ سے ملے گا کب

تیرے منہ سے نکلے خدا کرے 'اسی سال میں 'اسی ماہ میں

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ہم دل میں  شعر تازہ کررہے تھے کہ سرخ پوش نے بے تابی میں  سوال دہرایا :

'کب آئے گاپلیز'

 ہم نے اس کے ہاتھ کو ذرا ترچھے زاویے سے دیکھا اور کہا :

'اسی سال میں  '

 'سچ؟'

اس نے پھول کی طرح کھلتے ہوئے پوچھا۔

 'بلکہ اسی ماہ میں  '

'سچ مچ؟اووہ!'

اور وہ مکمل کنول بن گئی ۔اور پھر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا یعنی معمول نے اپنے عامل کا ہاتھ کامل شوق کے ساتھ اٹھایا اورلبوں  تک لے گئی ۔ لیکن اس حسین کلائمکس پر پہنچتے ہی چار اور لڑکیوں  نے ہماری جانب ہاتھ بڑھا دیئے۔ انہماک میں  ہم نے یہ نہ دیکھا تھا کہ صوفے کے پیچھے امیدواروں  کا کیو(قطار)لگ رہا ہے''

یہاں  پر احمد فراز یاد آرہے ہیں  ۔ جو غالباََ اس طرح کے کئی واقعات کو جھیل چکے تھے۔ان کا نٹ کھٹ تجربہ ہے کہ

ہم نے بھی دست شناسی کے بہانے کی ہیں

ہاتھ میں  ہاتھ لیے یار سے باتیں  کیا کیا

مزے دارادبی وی لاگزدیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 احمد فراز اور کرنل صاحب ہر دو حضرات کے دور میں  غالباََ ایسی باتیں  ہوتی ہوں  گی ۔ہمارے عہد میں  ترقی نے ایسی معمولی مگر بے انتہا رومانوی باتوں  کو دقیانوسیت اور ناجائز پن کی چادر اوڑھا دی ہے۔ہم تو جس سے بھی کہیں  کہ' آئیے !آپ کا ہا تھ دیکھیں ' تو جواب میں  ہاتھ نہیں  بلکہ سننے کو ملتا ہے کہ 'کیا آپ ابھی تک ایسی خرافات پر یقین رکھتے ہیں ؟رئیلی؟؟؟ '۔اور پھر پلک جھپکنے میں  آدھے شہر میں  بات پھیل جاتی ہے کہ 'ان حضرت کو دیکھئے،یہ آج کے زمانے میں  بھی ہاتھ دیکھنے کی باتیں  کرتے ہیں '۔بلکہ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ یا تو یہ حسینوں  کے ہاتھ دیکھنے کی باتیں  سر اسر جھوٹ تھیں  یاپھر ایسے 'قصہ گو' بخشے ہوئے واقع ہوئے تھے۔

یہاں پہ ہم تھوڑی سی آزادی کے ساتھ احمد فراز کے کچھ اشعار کی من چاہی تشریح کرنا چاہیں  گے تاکہ آئندہ جب ہم کوئی کالم لکھیں  تو اس حصے سے اقتباسات نقل کرسکیں ۔آپ یہ بات لکھ لیجئے ' ہو سکتا ہے کہ ہمیں  مروت میں  ریفرینس کے لیے محض 'عظیم دانشور 'پر اکتفاء کر نا پڑے لیکن آپ یادرکھئے گا کہ وہ دانشور ہم خود ہی ہیں ۔

احمد فراز کاایک اور خوبصورت قطعہ ملاحظہ ہو ' جس میں  انہوں نے دیوارپر ٹنگے اور محب کی آنکھوں  میں  لگے آئینوں سے متعلق کچھ نئی بات نکالی ہے۔

میں  خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں  والے

اُداس چھوڑ گئے آئینہ دِکھا کے مجھے

کھنچی ہوئی ہے میرے آنسوؤں  میں  اِک تصویر

فراز دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے

 کیایوں نہیں  لگ رہا کہ جیسے آئینہ دیکھنا بھی ہاتھ دیکھنے جیسا ہی کوئی فعل ہو ۔آئینہ دیکھنے والا اپنے حسن سے ہی مرعوب ہو'اسی پر کیا منحصر؟ ۔ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے چہرے سے مٹ جانے والی کوئی تحریر ڈھونڈتاہو۔ کسی دوسرے کی انگلیوں  کے پوروں  کے نشان تلاشتاہو۔اور پھر دوسرے شعر میں ' پس آئینہ' لگی خوبصورت تصویر کے کیا کہنے؟؟؟ وہ ہنستی تصویر جو کسی پہلی نظر کی دین ہو۔جو ہر غم میں  کھلکھلاتی رہے ۔جو ہمیشہ ایک سی رہتی ہو۔جوزمانے کی ہواسے کبھی گردآلود نہ ہوتی ہو۔ایسے منظر تو ہر آنکھ میں  محفوظ ہوتے ہیں  ۔

اورآخر میں  پروفیسر انور مسعود کی بات سب پہ بھاری لگ رہی ہے۔

تو کیا چھپا رہا ہے میرا ہاتھ دیکھ کر

اے کف شناس! میں  بھی قیافہ شناس ہوں

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے