کلاس
میں ہماری اکثر کوشش ہوتی ہے کہ پروفیسرحضرات
کو موضوع سے ہٹا دیا جائے ۔ اس ”مشن“کے دو مقاصد ہوتے ہیں ۔ایک تو یہ کہ کلاس کا وقت
ختم ہوجائے اور دوسرا یہ کہ ہوم ورک کم سے کم ملے۔اس دن بھی ایسا ہی ہوا۔کلاس پورے
شدومدسے جاری تھی ،طلبہ کی حالت قابلِ رحم ہو رہی تھی ۔ لیکچر طویل ہونے لگا تو ایک طالب علم
ملکی حالات اورصنعتی بدحالی کا رونا رونے لگا۔ ٹیچر کی کچھ لمحے خاموشی سے شہ پاکر
دیگر چند کو بھی موقع مل گیا۔ دو ایک ”بھانڈ
نما“ طالبعلم ہمارے منتخب نمائندوں کی طرح
ملکی حالات کی دہائی دینے لگے۔پروفیسرصاحب نے دَم لینے کے بعد بغیر کوئی ظاہری توجہ
دیئے لیکچرجاری رکھا ۔ ”جانبازوں “ نے ہمت
نہ ہاری اور مستقل نعرہ زنی کرتے رہے۔ ہوتے ہوتے بات معدنیات کی فراوانی اور حکومتی
نااہلی تک جاپہنچی ۔بالآخر نتیجہ حسب ِتوقع اور حسب ِخواہش رہا۔پروفیسر صاحب نے محسوس
کیا کہ طلبہ بوریت محسوس کرنے لگے ہیں تو انہوں
نے لیکچر کو ایک طرف رکھا اور ہماری بحث میں
کود پڑے ۔
پروفیسرصاحب کو بھی آمادہءِ گفتگو
دیکھ کر سب طلبہ کے تنے اور ستے ہوئے چہروں پر شادابی اور رونق لوٹ آئی اور سب”حسب ِتوفیق“ بڑھ
چڑھ کر سوال کرنے لگے تاکہ اُن کادھیان بٹا
رہے اور وہ لیکچر دوبارہ شروع کرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔پروفیسر صاحب نے ملک میں موجود
وافر معدنیات کے لیے مستقبل کے معماروں کو
اس قدر ”بے چین “ دیکھا تو قدرتی وسائل پر ہی بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
بات
کا آغاز انہوں نے روس کی مثال سے کیا کہ وہاں
پچیس تیس سال قبل بھوک کو دور دورہ تھا اور
عوام فاقوں مر رہے تھے ۔پھر روس نے ملک میں
موجود LPGکے
ذخائر کا سہارا لیا اوربحری جہازLPGسے
بھر بھر کے برطانیہ اور یورپ کے دیگرممالک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے لگے ۔نتیجتاََوہاں
خوشحالی آتی گئی اور آج وہاں فی کس آمدنی 32ہزار ڈالر سالانہ ہوچکی ہے جو پچیس
برس پہلے محض 4ہزار ڈالر تھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ ہمارے ملک سے معدنیات کو کیوں نہیں نکالا
جارہا؟ ان کا کہنا تھا کہ
”اگر کسی ملک میں معدنیات کی فراوانی ہوتو اس خطے میں موجود ممالک جو اس ملک سے پرخاش رکھتے ہوں تووہ وہاں
ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال بگڑ جائے ۔ تاکہ کوئی بھی سرکاری ،ملکی یا غیر ملکی کمپنی وہاں پہ کام نہ کر سکے ۔ یا پھر عالمی اورمعاشی طاقتیں
معدنیات نکالنے میں استعمال ہونے والے آلات
ہی اتنے مہنگے کر دیتے ہیں کہ کوئی بھی ترقی
پذیر اور غریب ملک ان کو خرید ہی نہ سکے اور ہمیشہ ان کے امدادی ڈھکوسلوں اور معاشی شکنجوں میں پھنسے
رہیں ۔“
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے
گھانا کی مثال دیتے ہوئے کہا :
”افریقی
گھانا نامی ایک ملک ہے جو رقبے میں بھارت کے برابر ہے ۔یہ سرزمین اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں
سے مالا مال ہے۔ روزانہ 20سے25منٹ بارش ہوتی
ہے اور پھر مطلع صاف ہوجاتا ہے۔سیاحت کے لیے بھی یہ ملک اپنے اندر بے بہا خزانے لیے
ہوئے ہے۔معدنیات کی فراوانی میں پوری دنیامیں
اس کا پانچواں نمبر ہے لیکن عالمی طاقتیں اور علاقائی بدمعاش اس علاقے کی ترقی کی راہ میں
رکاوٹ ہیں ۔ان عالمی ٹھیکیداروں اور ترقی پسندوں نے وہاں کے لوگوں میں اسلحہ
بانٹ بانٹ کے کئی متحارب گروہ پیدا کر دیئے ہیں جو باہم دست وگریباں ہیں ۔سیاسی
حالات بھی عالمی طاقتوں کے زیر اثر ہیں جو کسی محب وطن اور کام کرنے والے راہنما کو کسی
اہم عہدے پہ فائز نہیں ہونے دیتے اور نتیجے
میں وہاں ہر طرح کے قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود دہشت
،بربریت ،موت اور فاقوں کا راج ہے۔اب وہاں
حالات ایسے مخدوش ہوچکے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کے امن دستے وہاں پر تعینات ہیں “۔
پروفیسر صاحب سانس لینے کو رکے تو دیکھا کہ تمام
طالب علم ہمہ تن گوش ہیں ( کچھ تو ”محوِ خوابِ خرگوش“بھی تھے)۔
چند ثانیے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے:
ایک نظر اِدھر بھی:
”
گھانا سے کسی حد تک ملتے جلتے حالات ہمارے ملک میں بھی ہیں ۔ہمارا ملک بھی قدرتی اور معدنی وسائل سے
مالا مال ہے۔ صرف بلوچستان ہی واقعتاسونے کی چڑیا ہے ۔ ریکوڈک اور سینڈکمیں کوئلے اور سونے کے ذخائر ہوں یاسوئی کے
مقام پہ قدرتی گیس کی موجودگی ،قدرت کی نیامتیں یہاں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ سیاحت کے حوالے مری کے بلند
وبالا اور پُر پیچ پہاڑ ہوں یا گلگت ،بلتستان
کی خوبصورت اور رنگین وادیاں ،پنجاب کے میدانی اور نیم پہاڑی علاقے ہوں یا سندھ میں تھے جیسے ریگستان،یہ خطہ بے مثال خوبصورتی کاپیامبر
ہے لیکن یہاں پر بھی کچھ علاقائی بدمعاش اور
عالمی طاقتوں کے مفاد ہیں جواس کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔تقسیم ِبرصغیر کے وقت ،اس وقت کی سپر پاوربرطانیہ
ہمیں کشمیر کے مسئلے میں اُلجھا گیا جو سات دہائیاں گزرنے کے باوجود پاکستان اوربھارت کے گلے کابنا ہوا
کانٹا ہے ۔ہمارے ہمسائے بھارت نے قیام کے دن سے پاکستان کی دامے درمے قدرے سخنے مخالفت
کی ہے اور آج بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے
دیتا۔
بھارت کے علاوہ اسرائیل ، امریکہ
اور روس کے خفیہ اداروں کے ایجنٹ یہاں کے لوگوں کو بھڑکاتے ہیں ۔ ان کی برین واشنگ کرتے ہیں اور پھراسلحے سے نواز کر انہیں ایکدوسرے کے ساتھ ہی لڑا دیتے ہیں ۔ ان کے ذریعے
فوج اور عوام کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ہماری خارجہ پالیسی اور سیاسی راہنما بھی
عالمی طاقتوں کے زیر تسلّط ہیں چنانچہ یہاں
حالات بہتر ہوتے ہیں اور نہ ہی امن وامان کی صورتحال ٹھیک رہتی ہے اور
اسی وجہ سے یہاں چھپے اربوں کھربوں کی
مالیت کے معدنی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا
جاسکتا ۔ غیر ملکی کمپنیوں کے کارکنوں کو اغوا اور قتل کیا جاتا ہے تا کہ کوئی بھی سرکاری،
ملکی یا غیر ملکی کمپنی یہاں پہ سرمایہ کاری
ہی نہ کرے۔“
پروفیسر
صاحب نے ذرا دَم لیا اور پھر اپنے تجربے سے ہمیں اس صورتحال کا حل بتاتے ہوئے کہنے لگے:
”عالمی
طاقتیں اور علاقائی بدمعاش چاہے کچھ بھی کر
لیں لیکن جب تک ہمارے ملک میں سے کچھ لوگ، کچھ ضمیر فروش ان کا ساتھ نہیں دیتے ، وہ کچھ بھی کرنے سے قطعی طور پہ عاری ہوتے
ہیں ۔چنانچہ جب تک ہمیں شعور نہیں آتا، غلط صحیح اور دوست دشمن کی پہچان نہیں آتی،ہم ایسے ہی بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ اپنے ہی لوگوں کا جینادوبھر کیے رکھیں گے۔ جب تک
ہم جذباتی پن کی بجائے حقائق کی آنکھ سے عوامل کو نہیں پرکھیں گے
،تب تک ہم شیعہ ،سنی فسادات میں ہی الجھے رہیں
گے۔سانحات ِ کوئٹہ اور چلاس کی طرح ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے۔ بیرونی
دشمنوں کاکام آسان کرتے رہیں گے اور غربت ،گرانی اور غلامی کو روتے رہیں گے“۔
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے