Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

کالم نگاری کے آزمودہ طریقے

  ColumnNigariKAazmudaTareeqay,HowToWriteACoulmns,DifferentMethodsofColumnWriting,urdupoetry,urdustories,urdukahani,urducolumns,urducolumnstoday,urducol

کچھ ماہ پہلے ہم نے ''پانچ منٹ میں  کالم نگار بنئے'' کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا۔کالم لکھنے کے کافی عرصہ بعد تک بھی جب قارئین کی طرف سے رائے موصول نہ ہوئی تو ہم سوچنے پہ مجبور ہوئے۔ محض دو چار ہفتوں  کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ کالم تو کہیں  شائع ہی نہیں  کرایا ۔ ہم نے فوراََ فیس بک اور بلاگ  پر پوسٹ کردیا لیکن اس کے باوجود کسی قسم کاعوامی ردّ ِعمل دیکھنے کو نہ ملا۔ ہمیں  اس قدر 'مقبولیت' کا اندازہ نہ تھا ۔ سو فوراََ قلم تھاما اور سیکوئل لکھنے کی ٹھان لی۔ اب اِرادہ یہی ہے کہ جب تک ہمارے کسی نہ کسی کالم پہ ایک آدھ Commentیا Likeنہیں  جاتا ، ہم یہ نیک کام جاری رکھیں  گے۔

بہرحال  کام کی باتیں  تو ہوتی رہیں  گی پہلے کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں  کرلیتے ہیں ۔ ہمارا پہلا کالم پٹنے کی غالباََ وجوہات یہ بھی تھیں  کہ آپ ہمارے نکات سے متفق تو کیا ہوپاتے  انہیں  سمجھ ہی نہیں  پائے  لہٰذا اب گزارش یہ ہے کہ آنکھیں  کھول کر پڑا کریں ۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

1-سب سے پہلے تویہ سوچیں کہ کیا لکھنا ہے اور لکھنا بھی ہے یا نہیں ؟یعنی کیا کیا لکھنا ہے اور کیاکیا نہیں ؟ اگر آپ ہماری مانیں  تو دوسری بات زیادہ اہم ہے کیونکہ اگرآپ وہ نہیں  لکھیں  گے جو نہیں  لکھنا ہے تو جبھی وہ لکھ پائیں  گے جو لکھنا ہے ۔آہاہا! کیاعمدہ جملہ سرزد ہوگیا ہے  اگر آپ اب بھی سمجھ نہیں  پائے تو ضرور کالم نگار ہی بنیں گے۔

2-اس کے بعد یہ سوچیں  کہ جو بھی لکھنا ہے وہ آخرکیوں  لکھنا ہے ؟ یہ سوال اتنا اہم ہے کہ ہمارے ننانوے فی صد کالم نگار اسی سوال کے دَم پہ روزی روٹی کمائے جارہے ہیں ۔لیکن آپ پیٹ بھرنے کے بنیادی مدعے کو بھول جائیں  کیونکہ یہ سب کو بتانے والی بات نہیں  ہے ۔ ہاں  'اُمت کی نشاة ثانیہ 'اور 'قوم کی بیداری 'ایسی چند اورپکی اصطلاحیں یاد کریں  ۔اور جہاں  بھی کالم اَٹک جائے  وہاں  دس پندرہ فقروں  میں  لفظ بدل بدل کر یہی دُہراتے جائیں ۔اس سے نہ صرف آپ کا ہر رُکا ہواکالم مکمل ہوجائے گا بلکہ ایک خاص طبقے میں  آپ کی عزت بھی بڑھتی جائے گی کہ اللہ ہر کسی کو ایسی توفیق کہاں  دیتا ہے ۔ 'ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے'اسی کو کہتے ہیں ۔

آپ کے ذوقِ نظر کی نذر:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

3-'سیاسی کالم' اور' خبرو ں پہ تبصرہ' ایک ہی نوع سے تعلق رکھتے ہیں ۔اس کے لیے آپ کو ایک عدداخبار روزانہ خریدنا پڑے گا لیکن پڑھنے کے لیے ہرگز نہیں  کیونکہ آپ کالم نگار ہیں  کوئی بی۔اے کے طالب علم نہیں ۔یہاں  کرنے کا کام یہ ہے کہ قریباََ آدھا درجن خبروں  کو ہوبہو چھاپنا اور پھر اُن پہ اپنی رائے کا اظہار کردینا ہے اور بس  کالم تیارہوجائے گا۔اخبار کو بھولے سے بھی پڑھنے کی کوشش مت کیجئے گا ورنہ آپ کی رائے جانبدار ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا جو کہ فی زمانہ کالم نگاری کے لیے ایک مہلک شے ہے۔بلکہ بہتر تو یہ ہو گا کہ آپ کے تبصرے میں  کوئی ربط نہ ہو مثلاََاگر خبر میاں  چنوں  میں  سڑک کی خراب حالت کے بارے میں  ہو تو آپ کوچاہیے کہ نیویارک  لندن  پیرس اور اس قسم کے جتنے بھی نام آپ کو یاد ہیں  وہاں  کی سڑکوں  کے اوصاف گنوائیں ۔اگر آپ نے یہ شہر نہیں  دیکھے تو کوئی بات نہیں  آپ کویہ بھی کب معلوم ہے کہ میاں  چنوں  کہاں  پڑتا ہے۔بس تبصرہ ہونا چاہیے  جو ہوجائے گا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

4-ایک درجہ مزاحیہ کالموں  کا بھی ہوتا ہے ۔لیکن ان سے پرہیزہی بہتر ہے کیونکہ اگر آپ کے کالم پہ کسی کو ہنسی نہ آئی تو بے عزتی توہونی ہی ہونی ہے  دو چار کالموں  کے بعد آپ کو واپس اپنے پرانے پیشے پر لوٹنا پڑ سکتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ سیاسی کالم لکھنا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا ہوتا ہے جبکہ مزاحیہ کالم لکھنا اپنے سر پر۔آگے آپ خود سمجھ دار ہیں  ۔

5-کچھ کالم کتابوں پر تبصرے اور رائے دینے کے بھی ہوتے ہیں ۔یہ کالم ان افراد کے لیے تو بے حد اچھے ہیں  جن کے لائبریریوں  یا کباڑیوں  کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں  لیکن باقی سب کے لیے مضرہیں۔ ان کا نقصان یہ ہے کہ ایک تو کالم لکھنے کے لیے کتاب پوری پڑھنے پڑے گی  جو کافی دِقت طلب کام ہے جس کا ایک کالم نگارہرگز متحمل نہیں  ہوسکتا۔اوردوسری بات یہ کہ کتاب پڑھنے کے بعد بھی ایسا بے ضرر تبصرہ لکھنا کہ جس سے کتاب، مصنف،ناشر اور قاری کسی کو بھی کچھ فرق نہ پڑے ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے والی بات ہے ۔ البتہ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں  کہ کتاب پڑھے بنا ہی ریویو(Review)لکھنے میں  کیا ہرج ہے تو سبحان اللہ !آپ واقعی تھوڑے تھوڑے کالم نگار ہوتے جارہے ہیں  ۔اس قسم کے کالموں  میں  اگر کوئی محفوظ راستہ (Safe Side)ہے تو وہ یہی ہے ۔ بس آپ کے پاس ادب، تحقیق،سائنس، فکشن، نثر، شاعری، ناول،افسانے، مزاح  ہر زمرے میں  نمونے کے تبصرے موجود ہونے چائیں ۔ اورہاں  کتاب بھیجنے والے سے احتیاطاََ پوچھ لیں  کہ یہ کس زمرے کی ہے ۔ویسے دیکھ تو آپ بھی سکتے ہیں  لیکن ایک تو اس سے وقت ضائع ہوگا اور دوسرے مصنف یا ناشر اعتراض کرسکتا ہے کہ آپ نے 'آزاد نظموں ' کو' بچوں  کی کہانیوں  کی کتاب 'کہہ کر ہماری توہین کردی ہے۔

کالم نگاری کے فی الحال یہی شعبے ہیں کیونکہ باقی ہمیں  یاد نہیں  آرہے ۔آپ ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں  ۔مجھے اگر اس کے علاوہ کچھ یاد آیا۔یا اس کالم کو بھی وہی عوامی مقبولیت ملی  جو اس سے پہلے کو حاصل ہوئی ہے ۔تو یقینا جلد ہی پھر ملاقات ہوگی۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے