Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

دسمبر، نیا سال اور شاعری

 December, Decemberpoetry, December, NeyaSaalAurShairi, nawaiwaqtcolumns, dailyjangcolumns, sohailwarraichurducolumns, expresscolumns, columnist, اسد

دسمبر کا تیسرا عشرہ ختم  ہو نے کو ہے ۔ اِس دفعہ کسی طرف سے'اَنھے وا' شاعری موصول نہ ہوئی تو حیرت کے ساتھ ساتھ یک گونہ خوشی بھی ہوئی کہ ہو نا ہو شاعر کم ہو گئے ہیں ۔ جلدی سے فیس بک کھولی تو یہ خوشی ہرن ہو گئی۔ کیونکہ اب بھی درج ذیل قسم کے شعر تھوک میں  مل رہے تھے۔

ہندو مریا تے سڑ سواہ سواہ ہویا

مر مر کے میرا تیرے نا ل ویاہ ہوا

حیرت البتہ پھر بھی برقرار رہی کیونکہ 'دسمبر'ابھی تک دست درازی سے محفوظ تھا۔  ہمیں  فوراََ کالم لکھنے کا خیال آیا۔ اب ہمارے وہ قارئین جن کا خیال ہے کہ کالم لکھنا بھی کوئی کام ہے ۔ انہیں  اندازہ ہی نہیں  کہ کتنے آگ کے دریا عبورنے سے یہ مکمل ہوتا ہے۔ آپ صرف یہی دیکھیں کہ کالم کا نام رکھنے کی بحث شروع ہوئی تو ایک سوچ بولی کہ' دسمبر کی شاعری' رکھو ۔  دوسری کہنے لگی' دسمبر اور نئے سال کی شاعری' بہتر ہے۔ ایک تو نے حد ہی کر دی ، کہا ، 'دسمبر اور سالوں  کی شاعری'عمدہ ہے ۔  ہم جھنجلا اُٹھے مگر پھر جلد ہی بیٹھ گئے کیونکہ کھڑے کھڑے بھلا کالم کیسے لکھا جاسکتا تھا۔

یہ بھی دیکھیے گا:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

دو تین بار اُٹھ اُٹھ کر بیٹھے مگر کچھ ذہن میں  نہ آیا۔  وزیرِ اطلاعات کے والد احمد فراز  نے دھیمے لہجے میں پھبتی کسی تو ہمیں خیال آیا کہ مخول اِن کی خاندانی عادت ہے:

عقل کے شہر میں  آیاہے تو یوں  گم ہے جنوں

لب ِگویا کو بھی بے ساختہ پن یاد نہیں

ہم نے فراز  صاحب کو یاد دِلایا کہ دسمبر کے حوالے سے کچھ ارشاد فرمائیں۔  بھنا کے کہنے لگے کہ اپنی شاعری کے ساتھ ہونے والی اجتماعی زیادتیوں  کے بعد اب شعر کہنا موقوف کرچکاہوں ۔ کالم نے دُہائی دی تو  ہمیں ایک خوب صورت غزل کا سراپا یاد آیا۔ گو اِس کے ہر مصرعے میں عیب ِ تنافر موجود ہے لیکن پھر بھی کہیے کیا عمدہ غزل ہے:

بس اِک میری بات نہیں  تھی  سب کا دَرد دسمبر تھا

برف کے شہر میں  رہنے والا اِک اِک فرد دسمبر تھا

 

پچھلے سال کے آخر میں  بھی حیرت میں  ہم تینوں  تھے

اِک میں  تھا  اِک تنہائی تھی  اِک بے دَرد دسمبر تھا

 

اپنی اپنی ہمت تھی اور اپنی اپنی قسمت تھی

ہاتھ کسی کے نیلے تھے اور پیلا زرد دسمبر تھا

 

پھولوں  پر تھا سکتہ طاری  خوشبو سہمی سہی تھی

خوف زدہ تھا گلشن سارا  دہشت گرد دسمبرتھا

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

ایک اور شعر بھی بھاگتاہوا آیا اور کالم کا حصہ بننے کی ضد کرنے لگا۔  ہم نے ' سنسر بورڈ'  کو بڑی مشکل سے راضی کیا:  

تیری آغوش جو میسر ہو

سرد کمرے میں  آگ لگ جائے

دسمبر پراِتنے کوہی کافی سمجھتے ہوئے ہمیں  نئے سال کی فکر دامن گیر ہوئی تو سب سے پہلے تو غالب  نالہ فرسا سنائی پڑے۔  کہہ رہے تھے:

دیکھئے عشاق پاتے ہیں  بتوں  سے کیا فیض

اِک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے

پر ساتھ میں  ہی کسی دِل جلے کی آواز بھی زوروں  سے آرہی تھی ۔ غالباَوہ غالب  سے اُس پیش گوئی کرنے والے برہمن کا پتا پوچھتے پھر رہے تھے ۔ پتہ نہیں  اُس کی چھترول مقصود تھی یا اپنا ٹانکابھڑانا چاہتے تھے ۔ فوری مدعا البتہ یہ تھا:

نہ شب و روز ہی بدلے ہیں   نہ سال اچھا ہے

کس برہمن نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے

ہم نے ہر دو بزرگوں  کو لڑتا چھوڑا اور کسی گرامی 'پھابے کٹنی 'کی طرح چپکے سے کھسک لیے۔رَستے میں  میرؔ مل گئے۔وہ بھی کسی محفل کے نکالے ہوئے لگتے تھے۔ کہتے جارہے تھے:  

یوں  اُٹھے آہ ! اُس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں  سے اُٹھتا ہے

مزید دِل چسپ بلاگ:

حق مغفرت کرے

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے