فخرالدّین
رازی نام کے ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ۔دُنیا اُنہیں امام فخرالدّین رازی کے نام سے بھی جانتی ہے۔یہ
زمانہ ٔوسطیٰ کی اعلیٰ پایہ شخصیت اور عالم ِباعمل تھے۔فخرالدّین رازینے بہت سا
عِلمی اور تحقیقی کام بھی کیا۔ان کی ایک کتاب بہت مشہور ہوئی۔اِس کتاب میں انہوں نےﷲتعالیٰ کی ذات کو مختلف دلائل و براہین سے
ثابت کرنے کی کوشش کی ۔اس کتاب میں انہوں نے سو(١٠٠) دلائل کے ذریعے ﷲتعالیٰ کی ذات کو
ثابت کیا۔
جب
فخرالدّین رازی کے وصال کا وقت قریب آیا توشیطان(ابلیس)ان کے پاس پہنچ گیا اور کہا
کہ
''حضرت !میں تو ﷲتعالیٰ
کو نہیں مانتا۔آپ ثابت کر کے دکھائیں کہ ﷲتعالیٰ موجود ہے''
فخرالدّین
رازی نے پہلی دلیل دی۔ابلیس تیاری کر کے پہنچا تھا اُس نے جھٹ سے اُن کی دلیل کو
رَدّ کر دیا ۔ انہوں نے دوسری دلیل
دی۔ابلیس نے اس کو بھی رَدّ کر دیا۔فخرالدّین رازی نے ایک ایک کرکے سو کی سو دلیلیں
دیں لیکن شیطان ہر ایک کا توڑ بتا کر انہیں
رَدّ کرتا گیا ۔
جب ابلیس
نے ان کی سو کی سو دلیلوں کو رَدّ کر دیا
تو پہلی مرتبہ فخرالدّین رازی کے ماتھے پر گھبراہٹ سے پسینے کے قطرے نمودار
ہوئے۔ایک تو نزع کا عالم ،دوسرا تمام زندگی جن دلیلوں کو کوئی رَدّ نہ کر سکا،ابلیس نے سب کو رَدّ کر
دیا۔اب نزع کا عالم تھا،ایمان تھا کہ ڈگمگائے جا رہا تھاکہ اِتنے میں فخرالدّین رازی کے چہرے کے سامنے روشنی کا
جھماکا سا ہوا۔ اُن کے مُرشد پاک کا نُورانی چہرہ اس روشنی کے جھماکے میں سے ظاہر ہوا۔ انہوں نے فخرالدّین رازی کی طرف دیکھا اور جلال بھرے
لہجے میں کہاکہ
''فخرالدّین!تم کہہ کیوں نہیں دیتے کہ میں ﷲتعالیٰ کی ذات کو بغیر کِسی دلیل کے مانتاہوں ''
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
دینِ
اِسلام کی سب سے بڑی اور بنیا دی بات یہی ہے کہ ﷲتعالیٰ کی ذات کو بغیر کِسی دلیل
کے مانا جائے ۔قرآنِ پاک میں ایمان لانے
والوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ''
اَن دیکھے'' خُدا پر ایمان لانے والے ہیں ۔اِنسان کی حیثیت ایک خاک کے پُتلے سے
زیادہ کی نہیں ہے،لہٰذا اِنسان کو زیب نہیں
دیتا کہ وہ اپنے خالق کی حیثیت اور ذات کی
موجودگی کے حوالے سے تذبذب میں پڑے یا
کِسی ادنیٰ شک کو بھی ذہن کے کِسی گوشے میں جگہ دے۔
ﷲتعالیٰ
کی ذات کی موجودگی پر گو ہزاروں دلیلیں دی جا سکتی ہیں اور دی جاتی ہیں لیکن میرے خیال میں اِنسان اَشرف المخلوقات کا درجہ اُسی وقت پاتا
ہے جب وہ خُدا تعالی کی ذات کو بغیر کِسی دلیل کے مانتاہے۔
کچھ
عرصہ پہلے میں نے ایک اِسلامی رسالے میں ایک عالمِ دین کا مقالہ پڑاتھا ۔اُن کا کہنا تھا
کہ کِسی نے مُجھ سے اﷲتعالیٰ کی ذات کے حوالے سے کوئی سوال کیا تو میں نے اُس سے پُوچھا کہ
''سُبحانَ اﷲ''کا مطلب بتاؤ۔
وہ
کہنے لگا کہ
''ﷲپاک
ہے ''
وہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ دُرست لیکن صحیح مطلب یہ ہے کہ
''ﷲتعالیٰ ہر اُس عیب اور عُذر سے پاک ہے جو ہم
دانستہ یا نا دانستہ اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں ''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اُن
کا کہنا تھا کہ وہ آدمی کہنے لگا کہ
''آپ
کی اِس بات سے مُجھے بہت عرصہ پہلے ایک کافر کے پُوچھے گئے سوال کا جواب مِل گیا۔ کافر نے مُجھ سے پُوچھا
تھا کہ کیا ﷲ کوئی ایسا پتھر بنا سکتا ہے جِسے وہ خود نہ اُٹھا سکتا ہو؟آج آپ کے
''سُبحانَ ﷲ''کا مطلب بتانے سے اس سوال کا جواب بھی مِل گیا اور اِس حوالے سے
دیگر جتنے بھی لا یعنی سوالات میرے ذہن میں تھے وہ بھی دَم توڑ گئے ہیں ۔ واقعتا ﷲتعالیٰ
ذات تو ہر اُس عیب اور عُذر سے پاک ہے جو ہم اپنی کج فہمی ، ناقص عِلمی اور کم
عقلی کے سبب اُس کی طرف منسوب کرتے ہیں "
دینِ
اِسلام کی بنیاد یہی ہے کہ ﷲتعالیٰ نظر نہیں آتا۔ ہمیں ''اَن دیکھے ''خُدا پر ایمان لانا ہے اور جب
''اَن دیکھے '' خُدا پر ایمان لانا ہے تو پھر اس کے لیے کِسی دلیل کا سہارا کیوں لِیا جائے۔اُس ''رب ِواحد '' پر ہر دلیل سے بالا
تر ہو کر ایمان کیوں نہ لایا جائے کہ اَصل
''مُسلمانی''تو یہی ہے ،مزہ تو جب ہے کہ اُس پہ ایمان بالغیب ہو اور ہونٹوں اور دل میں اُس کے نام کا وِرد بے تکان،اَن گنت!
کیا مفت کا زاہدوں نے الزام لیا
تسبیح کے دانوں سے عبث کا م لیا
یہ نام وہ ہے جس کو بے
گنتی لیں
کیا لُطف جو گن گن کے
تیرانام لیا
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
0 تبصرے