اردن حملے کے بعد امریکہ کیا کرے گا؟ |
ابھی یا پھر کبھی نہیں: واشنگٹن کے لیے ایک مشکل فیصلہ
لیکن کیا یہ درست ہو گا؟
کیا درست ہوگا؟
امریکہ کو اپنی قوتِ مزاحمت اور لڑائی بڑھانے کے درمیان صحیح توازن کی تلاش ہے اور وہ اسے جلد یا بدیر تلاش کرنا ہی ہوگا۔
ڈر گئے بھئی ڈر گئے
خاموش صورتحال مزید حملوں کی حوصلہ افزائی بھی کر سکتی ہے۔ اور اگر امریکہ کوئی سخت کارروائی کرتا ہے تو یہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ایک شدید ردعمل متوقع ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کو تین ممکنہ ردعمل دکھائی دے رہے ہیں۔
مزید دِل چسپ بلاگ)یہ ہم نہیں، لوگ کہتے ہیں):
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
تین ممکنہ آپشنز
امریکہ کے پاس تین ممکنہ آپشنز ہیں:
ایران کے اتحادیوں کے اڈوں اور کمانڈروں پر حملے:
یہ سب سے واضح انتخاب ہے اور ماضیمیں اس کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ماضی میں امریکہ کی جانب سے کی جانے والی اس نوعیت کی کارروائیاں اب تک اِن جنگجو گروہوں کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ امریکہ گزشتہ سال سے سینکڑوں ایسی کارروائیوں میں بے شمار ٹارگٹا کو نشانہ بنا چکا ہے۔ مگر نتیجہ ہے کہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
ایران پر حملہ:
امریکہ کوئی ردعمل نہ دے:
وقت کا عنصر
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو سخت ردعمل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے اختتام کے بعد خطے میں کشیدگی کم ہو جائے گی۔ دوسری طرف، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کو ہر معاملے میں کھڑ پینچ بننے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ بلکہ اسے مشرق وسطی اور دیگر متنازعہ علاقوں میں اپنی عسکری موجودگی کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
آخر میں کیا ہوگا؟
آخر میں امریکہ کیا فیصلہ کرے گا، یہ واضح نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل فیصلہ ہے جس کے بڑے نتائج ہو سکتے ہیں۔
کچھ سوال بہر حال ضرور سوچے جانے چاہیئیں:
کیا امریکہ کا سخت ردعمل ایران کو اپنی پالیسیوں کو بدلنے پر مجبور کرے گا؟
کیا امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے؟
کیا جنگ ہی آخری اور واحد حل ہے؟
شرطیہ کٹھے مٹھے بلاگ:
0 تبصرے