'دروغ
بر گردنِ دروغہ ' شنید ہے کہ جب احمد فراز 'سب آوازیں میری ہیں ' لکھ رہے تھے تو
اُن کا پیٹ خراب تھا ۔ مقامِ شکر ہے کہ اس گروپ سے متعلق میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ 'سب
آوازیں میری نہیں '۔
چونکہ
مجھ سے کوئی انٹرویو کرنے والا نہیں لہٰذا
یہ فرض بھی مجھی پر عائد ہوتاہے ۔ کسی سچے شاعر نے میرے بارے میں ہی کہہ رکھا ہے
کہ
یہ روایت بھی چلی ہے مجھ سے
یہ فریضہ بھی ادا مجھ سے
ہوا
پہلا
سوال جو خود سے کرنا چاہوں گا وہ یہی ہے کہ
'
اس گروپ میں کیسے شامل ہوا؟'
اور
جواب انتہائی انوکھا کہ
'معلوم نہیں'
یہ سانحہ کب گزرا' یہ بھی علم نہیں۔ شامل کرنے والا اگرکہیں مل
جائے تو اپنا تمام کیا کرایا اُسی کے ذمے ڈال دوں ۔ آپ کو بھی اگر مجھ پہ کبھی غصہ
آئے تو اُسی کو پیٹئے گا ۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
جب
کچھ عرصہ پہلے بہت سارے گروپس ریموو کیے تو اِسے رہنے دیا ۔ وجہ صرف یہی تھی کہ اِس میں چند ایسے ممبران
موجود تھے جن کے بارے میں وہم سا تھا کہ واقعی خواتین ہیں ۔ تاہم اگر یہ ٹریپ تھا
تو میں پوری طرح اس میں پھنس چکا تھا۔
ذہنی
بلوغت ایک اور اہم وجہ تھی ۔ یہ یقینا اسی کی نشانی ہے کہ گروپ ممبران صبح سے رات
گئے تک بچوں کی طرح لڑنے کے باوجود دِل بُرا نہیں کرتے۔ اس گروپ کے ایڈمن عباس
تابش ؔمعلوم ہوتے ہیں:
یہ میاں اہلِ محبت
ہیں انہیں کچھ نہ کہو
یہ بڑے لوگ ہیں بچوں کی طرح سوچتے ہیں
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
فیچرزدیکھیں
تو یہاں کے لوگ کسی بھی موضوع پر بات کرسکتے ہیں ۔ ہم نے اپنی گنہ گار آنکھوں سے
دیکھ رکھا ہے کہ ڈاکٹر گاڑیاں ٹھیک کرنے کی ٹپس دے رہا ہے اور افسانہ نگار کھانوں
کی Recipesکی۔
کہیں خاتونِ خانہ مزاح کو زوال پذیری سے بچارہی ہے تو کوئی دُکان چھوڑکر اقوال
تخلیق کررہا ہے۔
نئی
بات یہ بھی ہے کہ یہاں پُراسرار کردار موجود ہیں ۔ جو گروپ کو جوڑے رکھنے کے لیے
ضروری ہے ۔ تجسس اور ڈربہرحال اپنا کام کرتا ہے
۔
بڈھے
بچے کھچے بال ڈائی اور انکل اُلٹے بلیڈ سے شیو کرکرکے تصاویر اَپ لوڈ کرتے ہیں اور
فی میل آئی ڈیز سے داد بٹورتے ہیں ۔ پتہ
نہیں صرف داد سے اِن کا بنتا کیا ہے۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
ایڈمنز
کی چونکہ کوئی نہیں مانتا اِس لیے وہ اپنے ہونے کا احساس پوسٹ اور بندے غائب کرکے
دِلاتے رہتے ہیں ۔ پر اِس کا کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ ہر جانے والا دو نئے
ناموں سے واپس آ جاتا ہے ۔ دو ناموں میں سے کم ازکم ایک ضرور زنانہ ہوتا ہے۔ گو
کبھی پڑھنے کی زحمت نہیں کی ورنہ شاید کچھ قوانین بھی ضرور موجود ہوں گے ۔ کیونکہ
اپنے ایک پیج کا مواد شیئر کرنے کے باعث دو بار ہفتے دَس دِن کے لیے Suspensionبھی بھگت چکاہوں ۔
اعتراض
کاپوچھیں تو یہاں ہر کسی کو اپنی آڈینس خود لانی پڑتی ہے ۔ جیسے پہلوان اپنے پٹھے
(اُلو کے پٹھے نہیں)ساتھ لے کر چلا کرتے تھے۔ اِدھر بھی قوالوں کی طرح مصرعہ
اُٹھانے والے اپنے ہوتے ہیں ۔ ان مقتدین کا دیگراماموں کی پوسٹس کے بارے میں رویہ
کچھ یوں ہوتا ہے:
کسی کو راستہ دے دیں کسی کو پانی نہ دیں
کہیں پہ نیل کہیں پر فرات ہیں ہم لوگ
کئی
دفعہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے گروپ میں مارشل لاء لگ گیا ہو۔ یا کوئی متوازی حکومت بن
گئی ہو۔ شکسپیئر سے غلط کہا تھا۔ وہ کہنا
یہ چاہتا تھا کہ 'یہ دُنیا ایک فیس بک گروپ ہے
جہاں نئے ممبران آتے ہیں اور لکھ لکھ کر چلے جاتے ہیں ۔ پرانے البتہ کہیں
نہیں جاتے'۔
یہ پڑھنا
بھی مت بھولیں:
0 تبصرے