گزشتہ
رمضان میں ایک بچپن کا دوست ملا۔ہمیں بھی کچھ
لمحے وقت کی ستم ظریفی پر افسوس ہوا ۔ وہ بھی ظالم (وقت)کے اِس قدر جلد بیت جانے پہ نالاں دِکھائی دیے۔ بہرحال، چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہ
جائے کے مصداق کب تک چپ بیٹھ سکتے تھے۔ کچھ ہی دیر میں وہی بچپن کی بے تکلفی عود کر آئی ۔ بڑی ہی بے
تکلفانہ گفتگو ہوئی۔آپ بے باکانہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ تُو تڑاخ کا بے دریغ استعمال
ہوا اور بجائے اِس کے کوئی فریق بُرا مانتا، کھل کر قہقہے لگائے گئے۔ پتہ نہیں
ندیمؔ بھابھہ کو یہ غلط فہمی کیوں ہوئی ہےکہ
ہمارا مسئلہ یہ ہے مذاق کس سے کریں
کہ پرانا دوست تو اب
احترام مانگتا ہے
ہمارے ان دوست موصوف کے حق میں تعلیمی نصاب بنانے
والوں کی پیش گوئی پوری ہوئی ہے کہ
”نوجوان
مستقبل کا معمار ہوتا ہے“
یہ
جناب محکمہ تعلیم کی ”خواہش “ کے عین مطابق آج کل”معماری“ کے پیشے سے ہی وابستہ ہیں
۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
کافی
دیر ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد میں نے عزت
مآب سے روز مرہ معمول کا پوچھا ۔موصوف کافی
صاف گواور بلند آوازبھی واقع ہوئے ہیں۔ سو، چنگھاڑ دار آواز میں فرمانے لگے:
”بس
یار،کیابتاﺅں
، صبح پانچ بجے بیدارہوئے ۔اس کے بعد نہادھو کر ناشتہ کیا اور کام پہ نکل جاگئے۔ اب
بندہ اس قدر گرمی میں تو روزہ رکھ ہی نہیں
سکتا کہ روزہ رکھ کے معماری کا کام ہرگز نہیں
ہوسکتا۔ سو، دن میں صرف دو بار چائے اور ایک مرتبہ لنچ کیا۔سہ پہر 2بجے
کے قریب گھر واپس آئے۔ کچھ دیر سونے کے بعد نہائے اور پھر شام کو تمام خاندان کے ساتھ مل کر افطاری
کی“
”افطاری؟؟“
میرے منہ سے اضطراری طورپہ نکلا ۔ میں نے اس کے بچپن کی طرح کے بے ہنگم بڑھے ہوئے بالوں
کو دیکھتے ہوئے کہا:
”لیکن
تم تو کہہ رہے تھے نا کہ تم روزہ نہیں رکھتے
تو پھر افطاری ؟؟چہ معنی دارد؟“
لُچر اور
فحش (گوئی سے پاک)ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
جناب
نے مجھے دیکھا اور بھر پور اندازمیں مسکرائے ۔ جیسے میں نے کوئی سوال نہ پوچھا ہوبلکہ کوئی لطیفہ ان کے گوش
گزار کیا ہو۔مسکرانے کے تکلف سے فارغ ہو کر جناب فرمانے لگے:
”یار!
بندہ سحری نہ کھائے، روزہ نہ رکھے تو الگ بات
ہے، اور اب اگر افطاری بھی نہ کرے تو کچھ عجیب عجیب سالگتا ہے ۔بھئی ،اگر سحری نہ کھا
پاﺅ اور پھر اس وجہ سے افطاری
بھی چھوڑ دو ،یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اگر کوئی سحری کھانے کی برکت اور روزہ رکھنے
کے ثواب سے محروم رہ گیا ہو تو کیا وہ افطاری کی برکت سے بھی محروم ہوجائے؟؟؟“
میں
قہقہوں میں اُس کے ساتھ شریک رہا اور بعد میں بھی دیر تک مسکراتا رہا۔ سوچتا رہا
کہ اگر مولوی کے تسلط کے بنا مذہب کو دیکھا جائے تو کتنا آسان آسان ہے۔ ہمت ہے تو
روزہ رکھ لیں۔ نہیں ہے، تو جزیہ ، فطرانہ دے دیں۔ سحری نہیں کھا سکتے تو افطاری
میں شریک ہو جائیں۔ گناہ ثواب کا حساب خدا کے پاس ہی رہنے دیں تو کتنا اچھا ہو۔ شاید
اِسی لیے کہا گیا تھا کہ
"مومن
کا دِل مفتی ہے"
البتہ
یہ بات مولوی سے کرتے ڈر لگتا ہے ۔ وہ کہیں لپک کر یہی نہ پوچھ لے کہ
"پہلے
خودکومومن تو ثابت کرو!"
ایک نظر
اِدھر بھی:
0 تبصرے