حاجی
صاحب خدا کو پیارے ہوئے تو ان کی وفا ت کی خبر فیس بک پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل
گئی۔ 725 کمنٹس آئے‘ مخالفین نے لائک کا بٹن منتخب کیاحالانکہ حاجی صاحب انتہائی
نیک انسان تھے۔ان کی شرافت کی اس سے بڑی گواہی کیا ہوگی
کہ انہوں نے کبھی اپنے موبائل پر کوڈ نہیں لگایا‘کبھی
کسی کو بلاک نہیں کیا۔
مرنے
کے بعد مرحوم کا موبائل چیک کیا گیا تو ساری سیلفیوں کے عقب میں جامع مسجد دکھائی
دی بلکہ ایک سیلفی تو انہوں نے حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے بھی بنائی
جو فیس بک پر 2.5Kشئیر ہوئی۔مرحوم
کا گوگل براؤزر کھولا گیا تو ہسٹری بالکل خالی ملی۔اہل محلہ گواہ ہیں کہ حاجی صاحب
ہینڈز فری بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ جو گفتگو کی‘ سب کے سامنے کی ۔
اتنے
اچھے اخلاق کے مالک تھے کہ واٹس ایپ سٹیٹس پر بھی السلام علیکم لکھ رکھا تھا۔ذمہ
دار اتنے کہ کبھی موبائل کی بیٹری ختم نہ ہونے دی۔اُ ن کی تدفین کے بعد جب ان کی
فیس بک کھولی گئی تو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے‘ چار ہزار سے زائد
فرینڈزاورہر ایک کے سٹیٹس پر حاجی صاحب کا لائک۔
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
ڈاکٹر
نے سختی سے نصیحت کی تھی کہ آپ دل کے مریض ہیں لہذا ہر وقت ایک ٹیبلٹ ساتھ رکھا
کریں۔سو بطور خاص ٹیبلٹ اپنے پاس رکھتے تھے اور زیادہ تر اُسی پر فلمیں دیکھتے
تھے۔فلموں کے حوالے سے اُن کے سخت اصول تھے۔کبھی کوئی فلم ڈاؤن لوڈ نہیں کی‘ ہمیشہ
آن لائن ہی دیکھی‘ موسیقی سے رغبت نہیں تھی لہٰذا گانے فارورڈ کر دیتے تھے۔
حاجی
صاحب یو ٹیوب بہت شوق سے دیکھتے تھے ۔خیر یہ ذکر چھوڑیں‘ یو ٹیوب تو ویسے بھی
کھولیں تو ہزار بیہودہ چیزیں آجاتی ہیں۔ مرحوم بڑی نفیس طبع کے مالک تھے۔ موبائل
ہر وقت ’’پاؤچ‘‘ میں رکھتے تھے۔لیپ ٹاپ کے کی بورڈ کو روزانہ خالی ٹوتھ برش سے صاف
کیا کرتے تھے اور چارجر کو بڑے طریقے سے
لپیٹ کر بیگ کی دائیں طرف رکھتے تھے۔
جیسا
کہ میں نے بتایا کہ آپ کو موسیقی سے نفرت تھی لہذا موبائل کی رنگ ٹون کی بجائے
وہاں اپنی آواز بھر کے لگائی ہوئی تھی۔ جونہی کوئی کال آتی‘ موبائل سے حاجی صاحب
کی آواز آتی:
’’حاجی
صاحب تہاڈا فون آیا اے‘‘
اُن
کی شرم و حیا اور قناعت پسندی کا یہ عالم تھا کہ کبھی واٹس ایپ پر وڈیو کالنگ کا
آپشن استعمال نہیں کیا‘ صرف آڈیو پر ہی اکتفا کیا۔ عزیز و اقارب کا اتنا خیال
رکھتے تھے کہ کبھی کسی کو بلاوجہ فون کرکے تنگ نہیں کیا۔بس ایک مسڈ کال دے دیتے
تھے۔دوسرا اگر مصروف نہ ہوتا تو خود کال کرلیتا ۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
مرحوم
ساری زندگی سیدھی راہ پر چلتے رہے ‘ کبھی گوگل میپ کا سہارا نہیں لیا۔زندہ تھے تو
سب بچوں کو پاس بلا کر سمجھایا کرتے تھے
کہ
یہ سام سنگ، اوپو فون وغیرہ سب فانی چیزیں ہیں‘ اصل چیز آئی فون ہے۔
آپ
کی دریا دلی بھی مشہور تھی۔ فیس بک پر کوئی بھی اچھی وڈیو دیکھ لیتے تو پہلی فرصت
میں لنک کاپی کرکے مستحقین کو بھیج دیا کرتے
موت
پر اتنا یقین کہ ڈیسک ٹاپ کی سکرین پر بھی قبرستان کی تصویر لگا رکھی تھی۔عزیز و
اقارب بتا رہے تھے کہ مرحوم اتنے نیک تھے
کہ
موبائل میں روزانہ فجر کا الارم لگا کر سوتے ۔جب الارم بجتا تو فوراً عزیز و اقارب
کے گروپ میں تازہ پھولوں کے ساتھ’’ صبح بخیر‘‘ کا میسج کرکے پھر سوجاتے۔یقیناًکسی
کی خاطر اپنی نیند خراب کرنا کوئی آسان کام تونہیں۔
مرحوم
کے بڑے بیٹے نے والد صاحب کا مشن آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ ابا جی کی
قبر پر ’’آئی پی کیمرہ‘‘ لگوائے گا تاکہ فاتحہ خوانی کے لیے پانچ کلومیٹر دور نہ
جانا پڑے۔۔۔!!!
کتاب"" حاجیوں کا سوشل
میڈیا "" سے اقتباس
آپ کے لیے
بطورِخاص:
0 تبصرے