آپ سوچ رہے ہوں گے کہ
بھلا یہ کیا بلاگ کا نام ہوا؟ لیکن سوچتے رہیں بھئی! ہمیں تو بلاگ کی ٹیگ سرچ یہی
بتا رہی ہے کہ بات پہنچی تیری جوانی تک نام کا ایک کالم سرِفہرست رہا ہے۔ وجہ وہی جو
اس کالم کا عنوان ہے۔ تیری جوانی شاعری۔ حالانکہ اس بلاگ میں صرف دو شعر تھے۔
بہرحال، اب ہم اِس ٹیگ کو صحیح طور سے کیش
کرنے جارہے ہیں۔ تو سیٹ سنبھال لیجئے، سیٹ بیلٹ کَس لیجئے۔ پہلا شعر آنے کو ہے:
فراق گورکھپوری ہیں۔
کہتے ہیں:
رات
بھی، نیند بھی، کہانی بھی
ہائے!
کیا چیز ہے جوانی بھی
عباس تابشؔ بھی ہیں:
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے
فانیؔ بدایونی بھی
موجود ہیں۔ ان کا یہ شعر پرانے بلاگ میں بھی شامل تھا:
ذکر
جب چھڑ گیا قیامت کا
بات
پہنچی تری جوانی تک
چند بلاگ آپ کی اُفتادِ طبع کے عین مطابق:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
امیر مینائی کہہ رہے
ہیں:
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
حفیظ جالندھری رقم
طراز ہیں:
تصور میں
بھی اب وہ بے نقاب آتے نہیں مجھ تک
قیامت آ چکی ہے لوگ کہتے ہیں شباب آیا
پھر فانیؔ بدایونی آ
گئے ہیں۔ واعظ پر چوٹ کر رہے ہیں:
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
بدرواسطی ایک نیا
مضمون پیدا کرتےہیں:
عذاب ہوتی ہیں اکثر شباب کی گھڑیاں
گلاب اپنی ہی خوشبو سے ڈرنے لگتے ہیں
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
شیخ ابراہیم ذوقؔ بھی
آن ٹپکے ہیں:
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
شاعرِ رومان، اختر
شیرانی بھی ہیں:
یاد آؤ مجھے للہ نہ تم یاد کرو
میری اور اپنی جوانی کو نہ برباد کرو
بیخود دہلوی کہتےہیں:
قیامت ہے تری اٹھتی جوانی
غضب ڈھانے لگیں نیچی نگاہیں
امداد امام اثرؔ بھی
یوں رونق افروز ہوتےہیں:
آئنہ دیکھ کے فرماتے ہیں
کس غضب کی ہے جوانی میری
عرش ملیسانی گویا فلسفہ
جھاڑتے ہیں:
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت ہے
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
سخن دہلوی سب کو مات
دیتے معلوم پڑتے ہیں:
سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
اثر صہبائی بھی تو
ہیں:
یہ حسن دل فریب یہ عالم شباب کا
گویا چھلک رہا ہے پیالہ شراب کا
عبدالحمید عدمؔ کی
بھی سنیے:
نوجوانی میں پارسا ہونا
کیسا کارِ زبوں ہے
پیارے
اک نظرمیری
طرف بھی، تیرا جاتا کیا ہے:
0 تبصرے