Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

ایشیاء کا پرندہ - عبدالخالق

 
Asia Ka Parinda, Abdul, Abdul Khaliq, Asad, Asad Mahmood, Urdu, Columns, Urdu Columns, Sports, Athletics, Race, 100 m race, 200 m race, Javed, Javed Chaudhry, Chakwal, Jand, Jand Awan, Nabeel Anwar, Ijaz Chaudhry, Analysis, Sports Analysis

چکوال سے چالیس کلو میٹر شمال مشرق کی سمت جائیں  تو جند اعوان نامی ایک قصبہ آتا ہے۔اس چھوٹے سے پسماندہ قصبے کی چند شخصیات کا ملک کی سیاست اور ثقافت پر بڑا گہرا اثر رہا ہے ۔سیاست کی بات کی جائے تو لیفٹنٹ جنرل(ر) عبدالمجید ملک پانچ مرتبہ اور ان کے بھتیجے میجر (ر) ایک مرتبہ ایم این اے رہ چکے ہیں  ۔اسی طرح اگر ثقافت میں  کھیلوں  کی بات کی جائے تو اسی قصبے کے قبرستان میں  ایک ایسی ہستی آسودہءِخاک ہے جسے دنیا ”ایشیاءکے تیز ترین انسان“ کے نام سے جانتی ہے ۔جی ہاں ، میں  بات کرر ہاہوں  عبدالخالق ، پرندہءِایشیا کی ....جنہوں  نے ایک عرصے تک دنیائے ایتھلیٹکس پہ راج کیا۔

عبدالخالق نے 23مارچ 1933ءکو اسی پسماندہ سے قصبے (جند اعوان) میں  جنم لیا۔تھوڑے بڑے ہوئے تو چکوال کی ثقافت کے ایک اہم کھیل کبڈی کے نمایاں  کھلاڑی بن گئے ۔کبڈی میں  ان کا شہرہ دُور دُور تک پھیلا ہوا تھا۔کبڈی میں  عبدالخالق کا کسی کے ہاتھ آنا ایک ناممکن سی بات سمجھی جاتی تھی۔ انہی دنوں  ایک میچ کے دوران اُس وقت کے پاکستان آرمی اسپورٹس کنٹرول بورڈ کے سربراہ بریگیڈئر سی۔ایچ۔ایم روڈھم کی نظر ان پر پڑی ۔ بریگیڈئر نے عبدالخالق کو پاک فوج کی اس کمپنی میں  بھرتی کر لیا جس کا کام بہترین ایتھلیٹ تیار کرنا تھا۔عبدالخالق ایک عمدہ کھلاڑی تو تھے ہی ،اعلیٰ تربیت اور کوچنگ نے ان کی صلاحیتوں  کو مزید چار چاند لگا دیئے۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

عبدالخالق 1954ءمیں  23سال کی عمر میں  عالمی منظر نامے پر اُبھرے۔انہوں  نے اس سال منیلا میں  ہونے والی ایشین گیمز سے اپنے بین الاقوامی کیرئیر کی ابتداءایسے کی کہ 100میٹر کا فاصلہ محض 10اعشاریہ 6سیکنڈز میں  طے کر کے نیا ریکارڈ قائم کردیا۔اس طوفانی دوڑ کو دیکھنے کے بعد وہاں  مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود جواہر لال نہرو نے عبدالخالق کو ” دی فلائنگ برڈ آف ایشیاء“ کا خطاب دیا۔1954ءکے انہی ایشیائی کھیلوں  میں  عبدالخالق نے 400میٹر کی دوڑ میں  چاندی کا تمغہ بھی سمیٹا۔ابتدائی دوڑ میں  ہی اس قدر اعلیٰ کارکردگی کے بعد پھر عبدالخالق رُکا نہیں  ۔ اس نے آنے والے عرصے میں  کئی عالمی ریکارڈز کو تہ وبالا کر دیا۔

عبدالخالق نے 1956ءمیں  نیودہلی میں  ہونے والی پہلی انڈو پاک گیمز اور 1958ءمیں  ٹوکیو میں  منعقدہ ایشین گیمز میں  نہ صرف گولڈ میڈلز جیتے بلکہ نئے ریکارڈز بھی قائم کیے۔ٹوکیومیں  انہوں  نے 100میٹر کی دوڑ میں  اپنا ریکارڈ برقرار رکھا ۔انہی کھیلوں  میں  انہوں  نے 200میٹر دوڑ میں  چاندی اور 400میٹر دوڑ میں  کانسی کا تمغہ بھی اپنے نام کیا۔عبدالخالق نے 1956ءکے میلبورن اور1960ءکے روم اولمپکس میں  بھی پاکستان کی نمائندگی کی ۔ میلبورن اولمپکس میں  100میٹر دوڑکے پہلے دو رانڈز میں  وہ دوسرے جبکہ 200میٹر دوڑ کے پہلے دو رانڈز میں  پہلے نمبر پر رہے ۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

ان چند سالوں  اوربعد میں  آنے والے کئی اور برسوں  میں  عبدالخالق نے چہارسُو اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑھنے کاسلسلہ جاری رکھا۔آنے والے چند برسوں  میں  انہوں  نے نہ صرف قومی کھیلوں  میں  100گولڈمیڈلز جیتے بلکہ بین الاقوامی کھیلوں  میں  بھی 26گولڈ میڈل اور 23سلور میڈل حاصل کرڈالے۔ 1958ءمیں  صدر ایوب خان نے عبدالخالق کو اُن کی بے پناہ صلاحیتوں  اور ملکی خدمات کے اعتراف میں  ”پرائڈ آف پرفارمنس“ سے نوازا۔

عبدالخالق کو اکثر لوگ 1960ءمیں  صدر ایوب خان کی طرف سے پاکستان میں  منعقدہ انڈوپاک گیمز میں  انڈین ایتھلیٹ مِلکھاسنگھ سے شکست کی وجہ سے یاد کرتے ہیں ۔ کھیل کے ماہرین عبدالخالق کی اس شکست پہ کئی ایک جواز پیش کرتے ہیں ۔مثلاََ ان کا کہنا ہے کہ اوّل تو صدر ایوب خان اسپورٹس ڈپلومیسی کے ذریعے بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہتے تھے ۔اس لیے ان کی منشاءیہی تھی کہ مِلکھا سنگھ لاہور میں  ہونے والی یہ دوڑ جیتے۔دوم، 1947ءمیں  مِلکھا سنگھ کا پوراخاندان پاکستان میں  قتل کردیا گیاتھا۔اس لیے وہ غصے میں  بھرا ہوا تھا اور بدلہ لینے کے لیے دوڑنے کی بجائے اُڑا جارہا تھا اور سوم یہ کہ عبدالخالق بنیادی طور پر 100میٹر دوڑ کے کھلاڑی تھے جبکہ مِلکھا سنگھ 200میٹر دوڑ کا ماہر تھا اور 1960ءمیں  لاہور میں  ہونے والی یہ دوڑ 200میٹر کی تھی لیکن میرے خیال میں  یہ تیسرا جواز کچھ لایعنی سا ہے کیونکہ مِلکھا سنگھ نے 1958ءمیں  ٹوکیوکی ایشین گیمز میں  200میٹر کا فاصلہ 21اعشاریہ 6سیکنڈز میں  طے کیاتھا جبکہ عبدالخالق یہی فاصلہ دو برس قبل 1956ءمیں 21اعشاریہ 1سیکنڈ میں  طے کر چکا تھا۔بہرحال، میرے خیال میں  شکست کا کوئی جواز نہیں  ہوا کرتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں  ہے کہ ہم محض ایک ناکامی پر ہی ایک اعلیٰ درجے کے ایتھلیٹ کو بھول جائیں  جس کا نام ایک عرصے تک کھیل کے ایوانوں  میں  گونجتا رہاہو۔

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

1971ءمیں  عبدالخالق بھی بھارت کے ہاتھ قید ہونے والے پاکستانی سپاہیوں  میں  شامل تھے۔بھارتی حکام کو جب اُن کی بارے میں  معلوم ہواتو انہوں  نے ان کی ازحد تعظیم کی ، حتیٰ کہ بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی نے انہیں  رہا کرنے کی پیشکش بھی کی لیکن عبدالخالق نے اپنے فوجی ساتھیوں  کے ساتھ ہی رہا ہونے کو ترجیح دی۔جنگی قیدیوں  کے اسی کیمپ میں  مِلکھا سنگھ بھی عبدالخالق سے ملنے آیا۔ مِلکھا سنگھ کا اس ملاقات کے بارے میں  کہنا ہے کہ جب ہم قیدیوں  کے کیمپ میں  ملے تو دونوں  کی آنکھوں  میں  آنسو تھے۔

عبدالخالق نے پاکستان آرمی اسپورٹس بورڈ میں  ایتھلیٹکس کی کوچنگ کی ذمہ داریاں  بھی نبھائیں ۔پاک فوج نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں  آپ کو اعزازی کپتان کے عہدے سے نوازا ،جو ایک عام سپاہی کے لیے سب سے بڑا رینک ہوتا ہے۔ عبدالخالق اسی عہدے کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔پاکستان اور دنیائے کھیل کے اس عظیم ایتھلیٹ نے 1988ءمیں  اس جہانِ فانی سے کوچ کیا۔ آپ کے انتقال کے بعد پاک فوج نے ان کے گھرانے کو ایک گھر سے بھی نوازا۔

عبدالخالق ایسے عظیم کھلاڑی کو ملکِ پاکستان کے ہر محب وطن شہری کی طرف سے ایک زوردار سیلوٹ!!!

حواشی:

1-"Did the "fastest man of Asia" run in vain?" by Nabeel Anwar Dhakku

2-"Abdul Khaliq: The fastest man of Asia" by Ijaz Chaudhry

-3”عبدالخالق کا کوئی نہیں “از جاوید چودھری

یہ خستہ خستہ بلاگ بھی چکھیں:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے