Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

الیکشن 2024ء: ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ اور چند سوالات

 

الیکشن سے پہلے سیکورٹی اور اِس کے انعقاد کے حوالے سے جو ابہام تھے، وہ رفع ہوئے۔ سیکورٹی کے خدشات تاہم سر اُٹھاتے رہے۔ آئندہ حکومت کو یہ مسئلہ بھی بہرحال درپیش رہے گا۔
عام انتخابات 2024ء

استاد شعراء نے 2024ء کے الیکشن بارے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ

"کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے "

"دِن گنے جاتے تھے جس دِن کے لیے"

"یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی "

"وہ اِنتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں" وغیرہ وغیرہ


اب الیکشن کی بساط سمٹ چکی ہے ۔  کئی مہرے، چہرے مہرے سے بھی گئےہیں ۔ اور کئی ایسے ہیں کہ آزاد طبع ہیں مگر خراماں خراماں اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں۔ جتنی ہڑبونگ اِس دفعہ مچی ہے۔ کم ہی کسی بار مچی ہو گی۔ ذیل میں اس الیکشن کے اہم پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا:


الیکشن 2024ء – ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ: کیا کھویا ، کیا پایا؟


الیکشن سے پہلے سیکورٹی اور اِس کے انعقاد کے حوالے سے جو ابہام تھے، وہ رفع ہوئے۔ سیکورٹی کے خدشات تاہم سر اُٹھاتے رہے۔ آئندہ حکومت کو یہ مسئلہ بھی بہرحال درپیش رہے گا۔ دھماکے اور فائرنگ کے مختلف واقعات میں کئی لوگ جان سے گئے۔ جو کہ ایک افسوسناک اَمر ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر انگریزی کا محاورہ ہے کہ 

All is well, if it ends well.

سو ، اختتام اچھا ہوگیا ہے تو اب باقی باتیں بھلائی جاسکتی ہیں۔ کولیٹرل ڈیمیج کے نام پر ہی سہی، مگر جلد یا بدیر ہضم کرنی ہی پڑیں گی۔ 

اُن تجزیہ کاروں کی بات درست ثابت ہوئی ۔ جو 2024ء کے انتخابات کو آزاد اُمیدواروں کے انتخابات قرار دے رہے تھے۔ آزاد اُمیدوار مرکز ، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں ایک بڑی طاقت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اگر وہ ایک پارٹی کے طور پر لڑتے اور کچھ معاملات میں زیرِ عتاب نہ ہوتے تو شاید کچھ زیادہ کر گزرتے۔ تاہم ایک خیال یہ بھی ہے کہ اِس "عتاب" کے باعث ہی وہ اِتنی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ آزاد اُمیدواران کے بعد پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاق اور پنجاب میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

چونکہ کوئی بھی جماعت بشمول آزاد اُمیدواران کے سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تو بہت ممکن ہے کہ آئندہ حکومت ایک "اتحادی حکومت" ہی ہو۔ 

مزید دِل چسپ  بلاگ)یہ ہم نہیں، لوگ کہتے ہیں):

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

نتائج لیٹ ہونے کا ذمہ دار کون؟

عام لوگوں کو شاید اِس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ جبھی وہ بار بار پریذائڈنگ آفیسرز کو اِس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ حالانکہ اِنہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پریذائیڈنگ آفیسرز نے 7 بجے تک گنتی کا عمل مکمل کر لیا تھا اور تقریباََ سبھی نے 10، ساڑھے دَس بجے تک تمام لکھت پڑھت کرنے کے بعد فارم -45 بھی پولنگ ایجنٹوں کے حوالے کر دیئے تھے۔ اس کے بعد رات کے 2، 4 بجے تک نتائج بھی ریٹرننگ آفیسرز کے دفاتر پہنچا دیئے تھے۔ اِس کےبعد RO’sنے محض جمع تفریق ہی کرنی تھی۔ اس میں اگر اِتنا وقت لگ رہا ہے تو ذمہ داری متعلقہ ریٹرننگ آفیسرز پر ڈالنی چاہیے نہ کہ پولنگ کے باقی عملے پر ۔ 


عام انتخابات 2024ء: کیا دھاندلی ہوئی؟


یہاں پر ایک دفعہ پھر سے جواب  اور ذمہ داری تقسیم ہو گی۔ پولنگ سٹیشن پر صبح 8 بجے سے لے کررات  10 بجے  تک تمام کام کیمروں اور پولنگ ایجنٹوں کی زیر نگرانی ہوا۔ اِکا دُکا بے قاعدگیوں کے علاوہ کہیں سے بھی اِس بات کی اطلاع نہیں ملی کہ پولنگ عملے نے دھاندلی کی کوشش کی ہو۔ 10 بجے فارم -45 پولنگ ایجنٹوں کے ہاتھ میں تھماتے ہی گراس رُوٹ لیول کے عملے کا کام ختم ہو جاتا ہے۔ اُس کے بعداگر اعلیٰ درجے پر دیر سویر یا ہیر پھیر ہوتی ہے ، یا ہوئی ہے تو اِس کا ذمہ دار بھی براہِ راست اُنہیں ٹھہرانا چاہیے ۔ اور ایسا صرف منہ زبانی کہنے پر ہی نہیں کر نا چاہیے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ دھاندلی سے متعلق تحریری اور ویڈیو، آیڈیو ثبوتوں کا باقاعدہ فرانزک کروائے اور پھر ذمہ داران کو کٹہرے میں لائے۔ اگر الزامات لگانے والے اُنہیں ثابت نہیں کر پاتے تو اُنہیں بھی اِس پر کڑی سزا دی جائے۔ 


عام انتخابات 2024ء : خراج ِ تحسین:


جیسے سیاسی، سماجی اور سیکورٹی حالات اِس دفعہ دگردوں تھے۔ ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ تاہم الیکشن میں  ڈیوٹی پر تعینات گراس روٹ عملے نے بہترین خدمات سرانجام دیں۔ اس عملے میں اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اِس دفعہ شہری دفاع کے محکمے جیسا کہ پولیس ، 1122اور دیگر ریسکیو ذرائع بھی پیش پیش رہے۔ فوج ہر دفعہ کی طرح اِس دفعہ بھی سیکورٹی کے لیے فرنٹ لائن پر ڈٹی نظر آئی۔ یہ تمام محکمے ایک کٹھن فریضے کو احسن طور پر پورا کرنے پر بے حد مبارک باد کے مستحق ہیں۔ 


گزشتہ پر چند سوالات -آئندہ کے لیے کچھ تجاویز:


چند سوالات البتہ ضرور پوچھے جانے چاہیئں۔ افتخار عارفؔ کے بقول :

صرف ہمیں تو نہیں ہیں جو اُٹھاتے ہیں سوال

جتنے خاک بسر ہیں شہر میں ، سب پوچھتے ہیں

آپ بھی پوچھئے۔ اُنہوں نے اِسی غزل میں ایک مصرع آپ جیسے "سست " افراد کے لیے بھی کہہ رکھا ہے کہ

"چلیے پہلے نہیں پوچھا تھا تو اب پوچھتے ہیں"

آپ بھی سوال اُٹھاتے رہیے۔ متعلقہ اِداروں کو جواب دِہ ہونا پڑے گا کہ 

  • موبائل سروسز بند نہ کرنے کے بار بار دعوے کرنے کے باوجود انتخابات شروع سے محض 10 منٹ پہلے تمام سروسز معطل کیوں کردی گئیں؟
  • بھر پور سیکورٹی انتظامات کے باوجود اِنٹرنیٹ سروسز بند رکھنا کیوں ضروری تھا؟
  • بار ہا اِس بات کے دعوے کیے گئے کہ نئی ایپلی کیشن آف لائن بھی کام کرے گی۔ مگرفارم -45 کے  رزلٹس مرتب ہونے کے بعد فارم-47 تک اِتنی دیر کیوں ہوئی؟
  • اگر موبائل اور اِنٹرنیٹ بند کرنے سے سیکورٹی خدشات پر قابو پایا جاسکتا تھا تو پھر شہری دفاع اور فوجی اِداروں کی ڈیوٹی کیوں لگائی گئی تھی؟
  • پولنگ عملے بشمول سیکورٹی اداروں کے لیے کم ازکم پولنگ ڈے پر تین وقت کے کھانے کا اِنتظام کس کی ذمہ داری تھی؟
  • گراس روٹ لیول پر اگر کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تو پھر اِس طرح کے الزامات کی مکمل تحقیق کر کے ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں کیا جارہا؟
  •  اگر بنیادی پولنگ اسٹاف نے 10، ساڑھے 10 بجے تک رزلٹ  مرتب اور رات  2،4 بجے تک ریٹرننگ آفیسرز کو جمع کرا دیا تھا تو پھر محض جمع تفریق کرنے پر اِتنا وقت کیوں ضائع ہوا؟ نتائج میں تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟


تجاویز کا ذکر کریں تو الیکٹرانک ووٹنگ مشینز کے استعمال نہ کرنے کا کوئی جواز سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر وجہ صرف یہ ہے کہ تب دھاندلی کا شور اٹھے گا تو وہ تو اب بھی اٹھ رہا ہے۔ اور جب جب الیکشنز ہوتے رہی گے، اٹھتا رہے گا۔ 


ایک اور تجویز یہ ہے کہ کیا پیمرا تمام چینلز کو اس بات کا پابند نہیں کر سکتا کہ وہ ہر روز محض چند منٹ ہی سہی، قوم کو شعور دیں، اس کی تربیت کریں۔ اس تربیت کے ایس او پیز بنا دیے جائیں کہ کیا سکھانا ہے اور کیا نہیں۔


کیا تربیت میں ووٹ کی اہمیت اور ہار قبول کرنا،مخالف کو اظہارِ رائے کی آزادی دینا جیسے اسباق شامل نہیں ہو سکتے؟


جہالت کو ختم کرنا اور سچائی کی ترویج ہماری قومی ذمہ داری ہے۔

شرطیہ کٹھے مٹھے بلاگ:

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

اے پی سی

بابا رحمتے کے تاریخی فیصلے


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے