سارا
بکھیڑا پانچویں کلاس سے شروع ہوا تھا۔کسی استاد نے ہی کہا تھا کہ بس یہ آخری کلاس
ہے یہاں محنت کر لو ۔پھر مزے کرو گے !
محنت کی شاید ٹاپ بھی کیا۔آٹھویں میں کوئی
بولا کہ یہی جماعت ہے جس میں مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے ۔ اصل محنت تو بس اب کے اب
ہی کرنی ہے ۔تیرہ چودہ سالہ بچہ چکنی چپڑی باتوں میں آگیا۔دِن رات ایک کردیا اور
پہلی پوزیشن لے اُڑا۔
میٹرک
میں کہا گیا کہ پہلے کی بھاگ دوڑ تو کسی کام کی نہیں تھی ۔ زندگی کا سب سے اہم
امتحان تو اب ہونا ہے ۔ اب کچھ کر دکھاؤ گے تو عمر بھرآرام سے کھاؤ گے ۔پندرہ سولہ
سال عمر ہی کیا ہوتی ہے ۔اور پھر اساتذہ کی باتیں نہ ماننا چہ معنی دارد؟۔ شاید وہاں بھی کوئی چھوٹا موٹا
ریکارڈ ٹوٹ گیا تھا۔سکول آنر بورڈ بول سکاتوضرور گواہی دے گا۔
یہ بھی
پڑھیے:
ایف
ایس سی میں یہ پٹی پڑھائی گئی کہ میٹرک تو ہزار ہا کرتے ہیں ۔ آوارہ گرد کیا میٹرک
نہیں ہوتے ؟ افسر تو انٹر کرنے والے ہی بنتے ہیں۔ستاسی فیصدی نمبر لینا اُن دِنوں
میں بھی کوئی عام واقعہ نہ تھا۔
انجینئرنگ
میں داخلہ ہوا تو بتایا گیا کہ
"You're one of the
selected ones"
سند نامی پرزے پہ شاید سی جی پی اے چار میں سے
تین اعشاریہ پانچ پانچ لکھا ہوا ہے۔لیکن ڈگری مکمل ہوئی تو دوسرے دِن ہی علم ہواکہ
یہ تو بس حسین خواب تھے جو دِکھائے گئے تھے ۔ سارے دُکاندار اپنی اپنی دُکان کا
سودا بیچ رہے تھے۔زندگی تو شروع ہی ا ب ہوئی تھی۔اور پھر دھیرے دھیرے پتہ چلا کہ
کاغذکے وہ ٹکڑے جو چند ریڑھی بانوں نے تھما دئیے تھے ۔ ان کا استعمال معاون نہیں
ہوسکتا کیونکہ آپ کی طرح کے لاکھوں بدھو بھی وہی خریداری کرچکے ہیں ۔ اب بدھو آپس
میں لڑ رہے ہیں اور دُکان دار وں کا تماشا جاری ہے ۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
0 تبصرے