میں
حسب ِعادت علی الصبح یعنی یہی کوئی 10بج
کر 25منٹ پہ بیدار ہوا ۔بیدار ہوتے ہی پہلا خیال یہی گزرا کہ پانی آج بھی ختم ہونے
کو ہے اور ٹینکی کئی دن پہلے بھری تھی اور جو اگر آج نہ بھری گئی تو شاید اگلے کئی
دن لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ
رہوں۔بس یہ خیال آتے ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے اور میں چستی کا عالمی مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے ہی لمحے
صحن میں تھا۔ٹینکی بھرنے کے لیے نل
چلایااور ٹینکی بھرنے تک نہا لینے کا سوچتے ہوئے واش روم میں گھس گیا۔
کپڑے
ابھی اُتارے ہی تھے کہ یاد آیا کہ تولیہ تو کمرے میں ہی بھول آیا ہوں ۔ مجبوراََ چستی کو لعن طن کرتے
ہوئے دوبارہ کپڑے پہنے اور کمرے میں جا کر
تولیہ اُٹھا لایا۔واش روم میں نہانے کے
لیے نل کھولا تو یاد آیا کہ رات کو گیزر چلانا بھی بھول گیا تھا۔پانی کا پہلا مگ
جسم پہ ڈالا تو اگلے پچھلے تمام گناہ یکبارگی یاد آگئے اور اس وقت صرف ایک ہی
خواہش نے دِل میں جنم لیاکہ کسی تپتے ہوئے
صحرا میں نکل جاؤں اور وہیں کا ہو رہوں۔ لیکن ایک تو ،ایک انگریز مصنف کے بقول کہ
”ہر خواہش زندگی میں پوری نہیں ہوتی“
اور
دوسرے یہ کہ اس وقت کم از کم دو تین سو مربع میل کے دائرے میں کوئی بھی صحرا دستیاب نہ تھا۔ سو ،مجھے جون
ایلیا کا کرب یاد آیا جو غالباََ اسی سے ملتے جلتے حالات میں کہہ گئے تھے کہ
قابلِ رحم ہیں وہ دیوانے
جن کو حاصل نہیں ہیں
ویرانے
مجبوراََ
مجھے جی کڑا کرکے چپ رہنا پڑا ۔چند مگ پانی کے مزید ڈالے تو جسم کا درجہ حرارت
گرنے کی وجہ سے پانی نیم گرم سا محسوس ہونے لگا ۔چنانچہ میں نے یہی فرض کرتے ہوئے کہ نیم گرم پانی سے نہا رہا
ہوں ،ساتھ ساتھ گنگنانا بھی شروع کردیا۔
نہانے کا شغل شاید کچھ دیر جاری رہتا لیکن باہر سے پانی کے گرنے کی آوازآنے لگی۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
میں
نے نیوٹن کی طرح از حد حیرت سے سوچا کہ
آخر جب نل واش روم میں لگا ہے تو پانی کی
آواز باہر سے کیوں آرہی ہے ؟واش روم کا نل
بند کیا تو پلے پڑا کہ چھت پہ نصب ٹینکی فل ہو چکی ہے اور اضافی پانی چھت کو متاثر
کرنے کے بعد اب سیلابی ریلے کی صورت میں صحن میں گر رہا تھا ۔ میں نے جلدی کے عالم میں محض تولیہ لپیٹا اور باہر کی جانب بھاگا۔ اس سے
پہلے کے میں نل تک پہنچتا، دروزہ بے دردی
سے پیٹا گیا۔ میں ٹھٹھک کر رُک گیا۔یہ
یقیناپولیس یا کوئی اندھاہی ہو گا جس کو دروازے کے ساتھ لگی ڈور بیل نظر نہیں آئی۔
میں
اندازے لگاتا ہوا اسی عالم میں گیٹ کی طرف بڑھا۔گیٹ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھانے
ہی لگا تھا کہ اچانک نظر اپنی ہیئت کذائی پر پڑی۔میں فقط تولیہ لپیٹے ہوئے تھا۔سو ،مناسب جانا کہ
پہلے آنے والے کو دیکھ لیا جائے ۔دروازے کی جھری سے نگاہ باہر دوڑائی تو ایک بپھری
ہوئے بھینس سرخ سرخ آنکھوں سے دروازے کو
مسلسل گھورے جارہی تھی ۔یہ وہی بھینس تھی جو اس دِن جانوروں کے وفد کے ساتھ کسی این جی اوکی نمائندہ بن کر
میرے گھر آئی تھی ۔اس کے گھورنے کا انداز دروازہ کھٹکھٹانے سے زیادہ توڑنے والا
تھا۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
میں
نے گھبرا کے دستار تھامنا چاہی ،جو موجود
نہ تھی۔ہاتھ فوراََ ہی شلوار کی جانب چلا گیا کہ کچھ نہ کچھ تو تھامنا ہی تھا ورنہ
میؔر کو کیا منہ دکھاتے؟شلوار کی جگہ تولیہ نظر آیا تو چودہ طبق اکٹھے ہی روشن
ہوگئے اور اس روشنی میں میرے پلے پڑا تو
فقط اتنا کہ میں نے آہستگی سے دروازے کی
کنڈی کھول دی لیکن پٹ بدستور بند رہنے دیئے اور جھری سے باہر جھانکنا بھی جاری
رکھا ۔بھینس دو قدم پیچھے ہٹی اور باقاعدہ ”رَن اپ “ لے کر دروازے کو توڑنے کی نیت
سے آگے بڑھی ۔
میں
دروازے کے پیچھے جیمز بانڈ بناتیار کھڑا
تھا۔اس سے پہلے کہ بھینس دروازے سے ٹکراتی میں نے دونوں پٹ یکبارگی کھول دیئے۔بھینس اپنے ہی زور میں طوفان میل کی مانند اندر گھستی چلی گئی اور میں اس قدر گھبرایا کہ جلدی سے باہر نکل کر دروزہ
باہر سے بند کردیا۔تھوڑی دیر تک دونوں فریقین کو سوچنے کی مہلت ہی نہ ملی اور جب چند
لمحے مزید گزرے تو دونوں ہی گھبرا گئے۔بھینس
اپنے آپ کو چار دیواری میں دیکھ کر اور میں
خود کو صرف تولیے میں دیکھ کر۔
بھینس
نے وہیں کھڑے کھڑے دوبارہ پوزیشن لی اور
اس سے پہلے کہ وہ اس دفعہ واقعی دروازہ توڑ دیتی۔میں نے فوراََ ہی دروازہ کھول دیا ۔بھینس جہاں کھڑی تھی وہیں کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔یقینا اس کا نیچے کا سانس
نیچے اور اوپر کا اوپر رہ گیا ہوگا۔بھینس نے کچھ دیر مجھے گھورا اور پھر کمزور سی
،ڈری ڈری آواز میں بولی:
”یہ تم تو گھر کے اندر تھے نا؟ تو باہر کیسے
پہنچ گئے؟“
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
”یہ
ٹیکنالوجی ہے ٹیکنالوجی“
میں
نے بھینس کی لاعلمی سے فائدہ اُٹھانے کی
کوشش کی اور ساتھ ہی قدم نل کی طرف بڑھائے کیونکہ اس وقت گھرکا ساراصحن اگست
ستمبرکا جنوبی پنجاب بن چکا تھا۔میں نل
بند کرکے پلٹا تو بھینس دوبارہ گویا ہوئی:
”یہ
تم نے سارے گھر کو پانی پانی کیوں کر رکھا
ہے؟“
میں
نے منہ بنایا کیونکہ یہ بات بھینس کے
پوچھنے کی ہرگز نہیں تھی:
” آہ ،کاش کہ تم بھی کسی فلیٹ میں اسی طرح رہائش پذیر ہوتیں جیسے میں ہوں تو
تم یہ سب کبھی نہ پوچھتیں “
”کیا
مطلب؟“
بھینس
نے اپنے تئیں سمجھ داری کا مظاہرہ کیا۔
”مطلب
یہ کہ میں نے یہاں پیراکی سیکھنی ہے، کشتی
بھی چلانی ہے اور اردو شاعری کے ہزاروں لاکھوں ڈوبتے شاعروں کو بھی بچانا ہے“
بھینس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ ایک سینگ میں اَڑسا ہوا کاغذ نکال کر میری طرف بڑھایا۔ اب
اتنے خطوط موصول نے کے بعد اُس سے یہ پوچھنا فضول تھاکہ یہ کیا ہے ۔ان جانوروں نے تو میرے گھر کا راستہ ہی دیکھ لیا تھا۔
کچھ
لمحات بعدبھینس خود ہی بولی:
”یہ میراخط ہے ،جس میں تمہارے کام پر کچھ تنقید کی گئی ہے لیکن اسے دِل
پہ مت لینا کیونکہ یہ محض میری رائے ہے۔ تمہارا اس سے متفق ہونا قطعی ضروری نہیں ہے“
بھینس
نے سہمے سہمے لہجے میں کہا اور باہر کا
راستہ لیا ۔مجھے لگا کہ وہ این جی اوسے وابستہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک دروازہ ”خود
بخود“ کھلنے اورمیرے گھر کے اندر کی بجائے باہر موجود ہونے کی”ٹیکنالوجی“سے خوفزدہ
تھی ۔میں نے فاتحانہ اندازمیں ایک مہمل نعرہ بلند کیا اور دروازہ بند کر دیا ۔دروازہ
بند کرکے پلٹا تو چاروں شانے چت زمین پہ
آرہا ۔غور کرنے پہ معلوم ہوا کہ سیلابی ریلا بڑی تیزی سے صحن کے نشیبی علاقوں کو اپنے تسلط میں لے رہا تھا۔
یہ بھی
پڑھیے:
میں
ہمت کر کے اُٹھا تو تولیہ بھی لت پت ہو
چکا تھا ۔ایسی حالت میں اگر کوئی مجھ دیکھ
لیتا تویقینا ٹارزن کا کوئی قریبی رشتہ دار ہی سمجھتا۔میں نے دروازے کے نیچے نکاسی آب کے لیے بنی نالی کے
سامنے پڑا اینٹ کا ٹکڑا اُٹھایا اور پانی بھل بھل کرتا باہر نکلنے لگا۔میں نے پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے دوبارہ واش
روم کی راہ لی۔ غسل مکمل کرنے کے بعدناشتے کے لیے چائے کا کپ اُٹھایااوربھینس کا
خط کھول کے بیٹھ گیا جس میں تحریر تھاکہ
”اے
نون سے نام نہاد دانشور!
چند
دن پہلے پانی پینے ساتھ والے گاؤں کے
تالاب پہ جانا ہوا تو وہاں پہلے سے آئی
ہوئی کچھ بھینسیں تمہارے گزشتہ کالم پہ
بحث کر رہی تھیں ۔ جس میں تم نے کوے سے
ملاقات کا ذکر کیا تھا۔ ان کی زبانی تمہارے نئے کالم کا احوال سن کر مجھے لگا کہ
شاید تم پہ ہماری نصیحتوں کچھ کچھ اثر
ہونے لگا ہے کیونکہ اس کالم میں تم نے
اپنی مخولیات سے زیادہ حقیقی واقعہ بیان کیا تھا ۔ اس لیے میں نے اس دن شام کو منعقد ہونے والے انجمنِ جانوراں
پاکستان کے اجلاس میں بحث کے دوران یہ نکتہ اُٹھایا کہ جب حکومت طالبان
سے مذاکرات کے لیے بار بار منت سماجت کر رہی ہے تو تم سے بھی مذاکرات کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
قائدینِ
حزب اختلاف (بکرا اور کتا)کو چونکہ پیسے ہی اختلاف کے ملتے ہیں اس لیے انہوں نے خوب اس تجویز کی مٹی پلید کی ۔ باقی سب نے
میری بات مان لی لیکن تم یہ ہر گز مت سمجھو کہ ہم حکومت کی طرح تم سے مذاکرات کے
مرے جارہے ہیں کیونکہ اصل بات تو میں نے دوسرے جانوروں کو بھی نہیں بتائی ۔
دراصل
بات یہ ہے کہ انہی دنوں میری NGOکو بھاری فنڈز موصول ہوئے ہیں ۔ اب
چونکہ ڈونرز کو کچھ نہ کچھ تو دکھانا ہی ہوتا ہے۔اس لیے
NGOکے کارناموں والے رجسٹر میں یہ بات موٹے مارکر سے لکھ دی گئی ہے کہ ہم نے
جانوروں کی شرحِ خواندگی کے مسئلے پہ تم
سے خط وکتابت کی اورپھر تمہاری تجاویز کی روشنی میں فنڈز خرچ کیے گئے۔اب تم یقینا سوچ رہے ہو گے کہ NGOنے تو تم سے ایسی کوئی بات ہی نہیں کی تو عرض یہ ہے کہ میرا خط لے کے خودتمہارے پاس
آنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ہمارے پاس تمہیں بھیجے جانے والے خط کا مضمون اس سے مختلف ہے جو
تمہارے ہاتھوں میں ہے ۔
تمہاری طرف سے جوابی خطوط بھی خود ہی بنالیے گئے
ہیں ۔ تم یہی سمجھو کہ تمہارا وقت بچ گیا
اور ہم ۔خیر چھوڑو، یہ مذاکرات وغیرہ کا تذکرہ بھی اب بھول جاؤ اورہاں ، میرے اس
خط کو پڑھ کے اگر تمہاری صحافت جاگنے لگے تو محض اتنا یاد رکھنا کہ ہم لاکھوں کروڑوں روپے خرد برد کرنے میں طاق ہونے کے اب ذرا بڑے
پروجیکٹ یعنی بندے اِدھر اُدھر کرنا شروع کرنا چاہتے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ تم
ہمارا پہلا تجربہ نہیں بنوگے“
فقط
بی ایف بفیلو
چیئر
پرسن جہالت مکاؤ NGO
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
1 تبصرے
Continuation from APC...
جواب دیںحذف کریںAs some says, Humor is the best medicine...
Go through a really funny article...