جب
کرنے کوکچھ نہ ہو تو مجھے وہ فارغ لمحے بعض اوقات بانجھ لگتے ہیں ۔ جن میں انسان ہر خیال و احساس سے عاری ہوتا ہے۔اِن
بانجھ لمحوں کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ یہ بھی سمندر پر دَر آنے والی اُس
کچھ دورانئے کی خاموشی کی طرح ہوتے ہیں جس کے بعد بڑے بڑے طوفان آ جایا کرتے ہیں ۔ یہ بانجھ لمحے بھی بڑے طوفان آور ہوتے ہیں ۔انسان
کو اپنی ہی رَو میں بہا کر لے جاتے ہیں اور نجانے کن ساحلوں پہ لے جا پٹختے ہیں ۔شاید اسی لیے خالی ذہن کو
شیطان کاگھر کہا گیا ہے۔بہرحال یہ چند
کہانیاں جو میں آپ کو سنانے جارہاہوں یہ بھی کچھ ایسے ہی بانجھ لمحوں کا نتیجہ تھیں ۔آپ کو یہ حق ہے کہ انہیں جزوی یا کلی طور پر مسترد کردیں۔ میں ایک معمولی سا کہانی گر ہوں ۔اگر یہ آپ کو اچھی لگیں تو شکرگزار ہوں گا۔ بُری
لگیں تو نئی گھڑلاؤں گا۔
مزید دِل چسپ بلاگ:
پہلی
کہانی ذرا عامیانہ سی ہے ۔کسی بزرگ نے اپنی اولاد کے لیے ایک نہایت شاندار گھر
بنایا اور اس میں اپنے چہیتوں کو ٹھہرایا لیکن ساتھ ہی میں انہیں خبردار کر دیا کہ اگر اس گھر کو ہمیشہ اسی حالت
میں دیکھتا چاہتے ہوتو فلاں فلاں دشمن سے بچ کے رہنا۔اولاد تو تھی ہی چہیتی۔سو چند دِن میں بزرگ کی بات آئی گئی ہو گئی ۔انہوں نے اپنی سمجھ اور دانش استعمال کرنی شروع کردی
اور دشمنوں سے میل ملاپ بڑھا لیا۔بزرگ نے
جب اپنی ہدایات کی پامالی دیکھی تواُسے خدشہ ہوا کہ اُس کی محنت سے کمایا ہوا گھر
اپنی وقعت کھو نہ دے ۔ لہٰذا اس نے تمام چہیتے رہائشیوں کو گھر سے نکال باہر کیا تاکہ انہیں احساس ہو جائے کہ بزرگ کی باتوں میں کتنی سچائی تھی۔ اب اُن چہیتوں کو بزرگ کی باتوں کی حقیقت کا علم ہوچکا ہے انہیں دوست دشمن کی پہچان بھی ہوگئی ہے لیکن اب انہیں یہ خوف کھائے جارہا ہے کہ جانے بزرگ انہیں کب معاف کرے ؟ اور کیا معلوم کہ اب دوبارہ وہ
گھر انہیں واپس ملے بھی یا نہیں؟
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
یہ
پہلی کہانی تھی ۔اب ذرا اس کی مماثلت دیکھیں ۔اللہ میاں نے اپنی چہیتی مخلوق انسان کو پیدا فرمایا۔فرشتوں
نے لاکھ کہا کہ یہ فسادی ہوگا لیکن اللہ
کو اس پہ مان تھا وہ ہر بار یہی کہتا رہا
کہ ' جو میں جانتا ہوں ، وہ تم نہیں جانتے'۔انسان کو پیدا کرنے کے بعد جنت ایسا عظیم
الشان گھر بنایا۔ خود اللہ میاں عرش معلیٰ
پہ رہتا ہے ۔اسے جنت کی بھلا کیا ضرورت تھی ۔یہ سب اپنے چہیتے انسان کے لیے ہو
رہاتھا جسے تمام مخلوقات میں اشرف بنایا گیا ۔اسے فرشتوں سے ممتاز بنانے کو خود علم سکھایا گیا اور پھر
مزید معززکرنے کو فرشتوں سے سجدہ کروایا
گیا ۔ محبت ،علم، عقل، حواس ، ہوس اس کی سرشت میں رکھ کر اسے جنت میں بھیج دیا گیا۔چند ہدایتیں بھی دے دی گئیں کہ دیکھو
یہ یہ مت کرنا ورنہ پچھتاؤ گے۔ فلاں تمہارا خیر خواہ نہیں ہے ۔اس سے بچ کے رہنا وغیرہ وغیرہ۔پر انسان تو
انسان تھا۔رب کا چہیتا تھا۔رب نے اسے فہم و خرد سے جو نوازاتھا۔سو جانے یہ اس عقل و دانش پہ اِترا گیا یاپھر ہوس،
محبت، ترحم کس جذبے سے مغلوب ہو گیا کہ وہی غلطی کر بیٹھا جس سے بچنے کا کہا گیا تھا۔ رب ِ تعالیٰ نے اسے
جنت سے بے دخل کردیا کرکے زمین پہ بھیج دیا کہ جاؤ اور دیکھو کہ سچ کون کہتا تھا۔پرکھو کہ گھر کتنی مشکل سے
ملتے ہیں ۔ جانو کہ کس کا عقل وشعور زیادہ
پختہ تھا۔
اور
انسان اُس وقت سے ڈرا سہما پھر رہا ہے ۔اب یہ سب کچھ پرکھ چکا ہے ۔لیکن اب یہ ڈر
اسے کھائے جارہا ہے کہ جانے مجھے میری غلطی کی معافی ملے گی بھی یا نہیں؟ اور جانے میں اب اس عالی شان گھر کے قابل ہوں بھی یا نہیں ؟
شرطیہ مِٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
دوسری
کہانی بھی کچھ زیادہ خاص نہیں ہے ۔اس کی
واحد خصوصیت اس کا منظوم ہونا ہے ۔یہ میجر (ر)شہزاد نیئرؔ کی ایک نظم ہے ۔ ''ہدایت
کار'' آپ نظم پڑھئے باقی باتیں بعد میں کرتے ہیں ۔
نہیں
یہ زاویہ اچھا نہیں
آؤ
اِدھر سے روشنی ڈالو
وہی
منظر اُجاگر ہو جو میں نے سوچ رکھا ہے
اُٹھاؤ
کیمرہ، آگے بڑھو دیکھو!
فقط
اُتنا دِکھاؤجس قدر میں چاہتا ہوں
کیا؟
ارے
لکھا ہوا ایسے نہیں پڑھتے
اداکاری
تو ایسی ہو
کوئی
بھی دیکھنے والا نہ یہ سمجھے
کہ
جو کرتے ہو وہ پہلے سے لکھا جاچکاہے
دیکھو
لوجینے کی نوٹنکی تو مرنے سے بھی مشکل ہے
ذرا
مر کر دِکھاؤ
کٹ!!!
یہ
مرنا ہے؟؟؟ ارے اِس میں ذرا سی جان تو
ڈالو
گزشتہ
بھول جاؤ سب
وہی
دیکھو جو میں آگے دکھاتاہوں
میری
ہر سین پر نظریں ہیں
کب کتنا چھپانا ہے ، کہاں کتنا دکھانا ہے
کہانی
کو کہاں سے موڑ دینا ہے
پرانی
داستاں اندر یہ منظر کس جگہ پر جوڑ دینا ہے
یہ
سب کچھ جانتا ہوں میں
تمہارا
کیا ذرا سے بیچ کے کردار ہوتم سب
تو
بس اِتنی غرض رکھو
کہاں
آغازتھا
انجام کب ہو گا
تمہیں
پوری کہانی سے کوئی مطلب!!
تمہیں
تو جلد ہی میں مار ڈالوں گا
کہانی
کاربھی میں ہوں
ہدایت
کار بھی میں ہوں
مزے دار ادبی
ویڈیوز کے لیے یہاں کلک کریں۔
یہ
دوسری کہانی تھی۔اب پھر ہم ذرا کینوس کو وسیع کرتے ہیں ۔یہاں کہانی کار اور ہدایت کار اللہ میاں ہے۔ وہی جو مہاکہانی گر اور سب سے بڑا ہدایت کار
ہے ۔اور ہم یہ بھی تو یقین رکھتے ہیں کہ
جب جب جو جو ہونا ہے تب تب سو سو ہونا ہے
کہ یہ سب لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے ۔اور
اللہ میاں بھی تو فرشتوں کے اعتراض پر باربار کہتا تھا کہ 'جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے '۔گو ہم اس مہا تخلیق کار کی سوچوں کی گرد بھی نہیں پا سکتے لیکن اندازہ تو لگا یا جاسکتا ہے ۔مفروضہ
تو بنایا جاسکتا ہے ۔تو یہ بھی تو ہو سکتا ہے انسان جو کر رہا ہے تمام مخلوقات جیسا بھی کر رہی ہیں وہ سب کچھ ہی Scriptedہو۔ہمیں
صرف Improvisationکی
آزادی دی گئی ہو۔ اور اگر یہ سب کچھ Scriptedہے
اور ہم سب اداکار ہیں تو پھر اچھا بُرا کردارتو معنی نہیں رکھتا ۔ہو سکتا ہے کہ وہ مہا ہدایت کاریہی کچھ
دیکھ رہا ہو کہ جسے برائی کا کردار دیا گیا ہے
وہ اسے کتنا عمدہ کرتا ہے اور جسے اچھا کرنے کو دیا گیا ہے وہ اسے کس خوبی سے نبھاتا ہے۔ اور اگر واقعی
ایسا ہی ہے تو پھر ابلیس کا کیا ہو کہ جسے کردار ہی وِلن کا دیا گیا ہے پر وہ اسے
کس عمدگی سے ادا کر رہا ہے ۔
یہ
چند کہانیاں میرے کچھ بانجھ لمحوں کی بدولت ہیں ۔یہ سب مفروضے ہیں ۔یہ سب سوال
اُٹھاتی ہیں ۔یہ سوال آدھا علم ہیں ۔اگر
کوئی برا نہ مانے تو ہم سب ہی اِن آدھے علوم کا باقی آدھ جاننا چاہتے ہیں ۔تو آئیے
اسی پیدا کرنے والے رب ِواحد سے التجا کرتے ہیں کہ وہ اِن علوم کو مکمل کردے کہ سچائی تو صرف
وہی جانتا ہے باقی سب تو محض اندازے ہیں ۔
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے