یہ
موت بھی کیا عجیب شے ہے۔ہم سے زیادہ ہمارے پیارو ں تک رسائی رکھتی ہے۔یہ اکثر
ہمارے ساتھ ہاتھ کر جاتی ہے اور ہم محض ہاتھ ملتے ہی رہ جاتے ہیں ۔سو اس بار بھی
ایسا ہی ہوا۔کچھ عرصہ پہلے جب مجھے اپنے ضلع کے اُستاد شاعر جناب عابد جعفری کے
متعلق معلوم ہوا تو میں نے اُن پہ کالم
لکھنے کا سوچا اور ساتھ ہی میں یہ ارادہ
بھی کیا کہ اِس دفعہ چکوال گیا تو اُن سے ملاقات کی بھی کوئی سبیل نکالوں گا۔انہی دِنوں 'ڈھڈیال نیوز' میں اُن کا دسمبر 2012ء میں دیا گیاایک انٹرویو بھی پڑھنے کو ملا ،جس سے میں
نے کئی اہم نکات کالم لکھنے کی غرض سے نوٹ
کر لیے۔اس کے بعد چند ماہ تک گردشِ دوراں نے مہلت ہی نہ دی اور دوتین دن پہلے جب میں نے وہ پرانی فائل کھولی تو اُن پہ تحریر لکھنے
کا سوچا۔لیپ ٹاپ کھولا اور مزید ریسرچ کرنے بیٹھ گیا۔گوگل پہ اُن کا نام لکھا تو
ڈان ڈاٹ کام پہ اُن کے نام سے ایک لنک کھلا۔ویب پیج کا کیپشن پڑھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ۔کیپشن میں لکھا تھاکہ
"Chakwal's
famous poet passes away"
یہ
پوسٹ قریباََ دو ماہ پہلے کی تھی ۔ میں سکتے کے عالم میں کافی دیر تک لیپ ٹاپ کی سکرین
کو گھورتا رہا۔میرے ذہن میں ایک شدت سے ایک خیال اُبھرا کہ کاش موت میری
خواہش کا احترام کر لیتی۔وہ کس آسانی سے میری معصوم خواہش کو روند کر نکل گئی تھی۔لیکن
قدرت کا ہاتھ بھلا کون پکڑ سکا ہے ۔انسان تو سدا سے بے خانماں اور بے بس ہی پیدا ہوا ہے ۔سو میں بھی اب بے بسی کے عالم میں ان کا نوحہ مرثیہ ہی تحریر کر رہاہوں ۔
شاہ
مراد کی دھرتی سے اُردو کو نہارنے والا چکوال کا یہ سپوت 24اپریل 1934ء کو پیدا
ہوا۔اُن کی پیدائش چکوال کے ایک دور افتادہ گاؤں منگوال کے ایک کاشتکار گھرانے میں ہوئی۔اُن کا نام اللہ داد خان رکھا گیا۔اللہ داد
خان ایسی خداد داد صلاحیتوں کے حامل تھے
کہ ابھی محض دوسری یا تیسری جماعت کے طالب علم تھے کہ شعر کہنا شروع کردیئے۔اللہ
داد خان کے گاؤں کے سکول میں آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی ۔سو انہوں نے گاؤں میں دستیاب بلند ترین ڈگری حاصل کی اور پھر لالہ
موسیٰ چلے گئے۔یہاں سے انہوں نےJV(جے
وی) نامی ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد وہ 1952ء میں تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ اپنے 28سالہ
کیرئیر میں وہ فرید کسر، منگوال، لطیفال،
ڈھوک مرید اور روال زیر کے سکولوں میں علم کے موتی لٹاتے رہے۔اس دوران وہ پنجابی زبان
میں شاعری بھی کرتے رہے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
1974ء
میں پنجاب ہی کے ایک اور شاعر اور ان کے
عزیز دوست ماجد صدیقی(ان کا اصل نام عاشق حسین ہے۔ادیب ، شاعر اور مزاح نگار ہیں ۔قریباََ 66کتابوں کے مصنف ہیں )نے اُن کی بکھری ہوئی غزلوں اور نظموں کو ڈھونڈ کر ایک کتابچے کی صورت میں جمع کیا اور ''گئے گواچے سُکھ'' (گزرے ،گمشدہ
سُکھ) کے عنوان سے شائع کیا۔
بعدمیں
اللہ داد خان نے اپنے لیے عابد جعفری کا
قلمی نام منتخب کیا اور ادبی حلقوں میں اسی نام سے پہچانے جانے لگے۔ریٹائرمنٹ کے بعد وہ
سادہ سی شلوار قمیض میں ملبوس ،ایک ہاتھ
میں سگریٹ تھامے اور چہرے پہ ہلکی ہلکی
داڑھی لیے منکسرالمزاجی کی عملی تصویر بنے اپنے گاؤ ں منگوال میں اپنے چاہنے والوں کا ہمیشہ خوش دِلی سے استقبال کرتے پائے جاتے
تھے۔
عابد
جعفری صاحب کی تین کتب شائع ہو چکی ہیں ۔ پنجابی مجموعہ ' گئے گواچے سُکھ' 1974ء
میں شائع ہوا ۔دو اُردو مجموعے 'نقشِ رگِ
جاں ' اور 'آٹھواں سمندر' بالتریب 1996ء
اور2004ء میں منظر ِ عام پر آئے۔وہ 'موئے
قلم' کے عنوان سے ایک اور اُردو مجموعہ شائع کرنا چاہتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ
کی ۔سنا ہے کہ وہ ملنے والوں کواپنے آمدہ
مجموعے میں سے اکثر ایک خوبصورت شعرسنایا
کرتے تھے:
اِک بات درمیاں ہے کہ ہے اَن کہی ہنوز
اِک راز ہے کہ حیرتِ موئے
قلم میں ہے
ادبی
ویڈیوزاور وی لاگز یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
اُن
کی شاعری زندگی اور انسان جیسے آفاقی موضوعات کے گرد گھومتی ہے۔اُن کی شاعری میں پنجاب اور خاص کر چکوال کے دیہاتی اور کھیتی
باڑی کے پسِ منظر کو واضح طور پر محسو س کیا جا سکتا ہے۔ان کے کلام میں جابجا علاقائی تشبیہات اور استعارات کا ایک
خزینہ موجود ملتا ہے۔اُن کی ایک غزل دیکھئے اور دیکھئے کہ اُن کا فن کیسے اَوجِ
کمال پہ نظر آتا ہے۔کیسے اس میں اپنی
تہذیب اور روایات کی خوشبو رچی بسی ہے:
اُداس شام کا منظر دکھائی
دیتا ہے
ہر ایک تار بدن کا دُہائی
دیتاہے
خزاں کی جب بھی کوئی تازہ فصل اُٹھتی ہے
مزارعہ مجھے آدھی بٹائی
دیتا ہے
عجیب بات ہے نقد متاع جاں
کے عوض
وہ شخص مجھ کو عقیدت پرائی
دیتا ہے
میں اپنے آپ میں چھوٹا دکھائی دیتاہوں
جب آئنہ مرا میری صفائی
دیتا ہے
عجیب پیکرِ معصومیت ہے
جانے کیوں
وہ میرے ہاتھ میں اپنی کلائی دیتاہے
خدا بھی کیسا سخی ہے کہ
اپنے بندے کو
جو بندگی کے عِوض میں خدائی دیتا ہے
بہت سخی ہے سنا ہے تو
دیکھئے عابدؔ
وہ حبسِ جاں سے ہمیں کب رہائی دیتا ہے
ایک نظر اِدھر بھی:
عابد
جعفری صاحب نے محض روایت سے لگی بندھی شاعری نہیں بلکہ انہوں نے نئی غزل کا آہنگ بھی اپنایا۔اُن کا ماننا تھا
کہ جدید غزل نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ اس سے غزل کا میدان اور بھی وسیع ہوگیا
ہے۔انہوں نے مذہبی،صوفیانہ شاعری بھی کی۔حمد
، نعت، نوحے اور مرثیے کی اصناف میں بھی
طبع آزمائی کی ۔اُردو کے علاوہ انہوں نے
پنجابی زبان کے لاہوری، دھنی، گجراتی اور سرائیکی لہجوں میں بھی
شاعری کی۔
حکومتِ
پاکستان تواپنی روایت کے عین مطابق اس شاعرِ بے مثل کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے میں ناکا م رہی ۔البتہ 1984ء میں پڑوسی ملک ہندوستان سے کچھ لوگوں نے اُن سے رابطہ کیا اور اُن کے پنجابی کلام کے
کچھ حصے امرتسر یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کرنے کی اجازت چاہی۔آج بھی پنجاب یونیورسٹی
چندی گڑھ کے ایم۔اے پنجابی کے نصاب میں عابد جعفری صاحب کاایک شعری فن پارہ 'پُھل تے
تریل'(پھول اور شبنم) موجود ہے جسے انہوں نے محض سترہ یا اٹھارہ سال کی عمر میں تحریر کیا تھا۔عابدجعفری صاحب ایک طویل عرصے تک
'ایوان ادب چکوال ' کے صدر بھی رہے۔ضلعی سطح پر اُن کو کئی ایک تعریفی اسناد سے
نوازا گیا لیکن منگوال کا یہ درویش شاعر عوام کی محبت کو ہی اپنے لیے سب سے بڑا
اعزاز سمجھتاتھا ۔اُن نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ
''مجھے کسی ستائش یا اعزاز کی خواہش نہیں ہے ۔ آدمی کو علم اورمشاہدے کا غلام ہونا
چاہیے''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اب
آخر میں چکوال میں اُردو شاعری کے 'گاڈ
فادر' عابد جعفری کے کچھ منتخب اشعار:
جنوب اپنا نہ دسترس
میں شمال اپنا
بھٹک گیا ہے کہاں نہ جانے غزال اپنا
رُخِ زلیخا کے آئینے پر
اَٹک گئی ہے
نگاہِ یوسف کہ ڈھونڈتی ہے
جمال اپنا
اُلجھ گیا ہوں میں
اپنے آپے میں آپ ایسا
کہ ہو گیا ہوں جواب اپنا، سوال اپنا
٭٭٭
ٹکڑوں میں بٹ
گیا ہوں شکستِ اَنا کے بعد
ہر باوفا بھی چھوڑا ہے اُس
بے وفا کے بعد
اِک بار پھر خدا سے ہی
مانگیں گے ہم تمہیں
عابد اُٹھیں گے حشر میں
جس دِن قضا کے بعد
٭٭٭
تیری گلی سے جب کوئی رشتہ
نہیں رہا
منزل نہیں رہی کوئی جادہ نہیں رہا
بیٹھیں کہاں
کہ سایۂ دیوار بھی نہیں
جائیں کہاں
کہ پاؤں میں رستہ نہیں
رہا
٭٭٭
مجھ کو جینے کا ہی اسلوب
نہ آیا عابدؔ
ورنہ بے مہر نہ ایسے تھے
زمانے میرے
حواشی:
1۔عابدؔ جعفری(انٹرویو) ازحر ثقلین
2۔''Chakwal's famous poet passes away'',
Dawn.com
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے