میں
بازار میں کھڑاپچھلے پندرہ منٹ سے کسی بھولی ہوئی بات کو
یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔مجھے فقط اتنا ہی یاد آ رہا تھا کہ بات بہت اہم تھی ۔لیکن
بات تھی کیا ؟ یہی یاد نہیں آرہا تھا۔میں سوچتے سوچتے ہلکان ہو چلا تھا کہ پاس سے ایک
آدمی گزرا۔ اُس نے مجھے گھور کر دیکھا۔میری چھٹی حس نے مجھے احساس دلایا کہ ہو نہ
ہو یہ بندہ ضرور مشکوک ہے۔وہ خاصا مخبوط الحواس دکھائی دے رہا تھا۔ وہ بھی مجھے
شاید اِس طرح مراقبے میں ڈوبا دیکھ کر
حیران تھا کہ پورے دو منٹ تک تھوڑے فاصلے
پر کھڑا ہو کر مجھے گھورتا رہا۔اور اِدھر میرا سارا دھیان اُسی شخص کی طرف ہوگیا
البتہ اپنے طور پہ میں نے سوچ
میں بھر پورڈوبا ہوا نظر آنے کی کوشش کر
نے لگا تاکہ اُسے پتہ نہ چل سکے۔اس ساری دیکھا دیکھی میں مجھے تو یہ بھی بھول گیا کہ میں چند لمحے پہلے کیا یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
اُس آدمی نے غالباََ ہر طرح سے یہ اطمینان
کر لینے کے بعد کہ میں اُسے پتھر نہیں ماروں گا میری طرف قدم بڑھائے۔میں چوکنا ہو کر کھڑا ہوگیا۔وہ میرے قریب آیا اور
کھنکار کر مجھے مخاطب کیا:
''بھائی
جان! میں اِس شہر میں نیا ہوں ''
وہ
جھجک کر چپ ہو گیا۔
میرے
ہاتھ فوراََ جیب میں رینگ گئے۔مجھے لگا کہ
یہ یقینا کوئی مانگنے والا ہے جومجھے شریف اور بے ضرر جان کر پیسے بٹورنے کے چکر
میں ہے۔اُس شخص نے بات دوبارہ جوڑی:
''آپ
پلیز بتائیں گے کہ وقت کیا ہواہے؟''
یہ پڑھنا بھی مت بھولیں:
اُس
کی اِس بات پہ میری نظر گھڑی پہ پڑی اور میں بے ساختہ گھبرا اُٹھا۔ایک بج کر اٹھاون منٹ ہوئے
تھے۔میری 'جیمز بانڈ مارکہ ' چھٹی حس نے مجھے دوبارہ احساس دِلایا کہ Clueیہیں
کہیں ہے ۔میں نے جلدی سے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی۔ وہ آدمی
مزید گھبرا گیا
''بھائی
جان!کیا ڈھونڈ رہے ہیں ؟''
''کچھ
نہیں تم جاؤ''
میں
نے بے خیالی میں کہا۔
اُس
نے ایک قدم اُٹھایا اور پھر لجاجت بھرے لہجے میں میری گھڑی کی طرف اشارہ کیا:
''اگر
آپ وقت بتادیں تو؟''
میں
نے 'جیمز بھانڈ پن 'پہ لعنت بھیجی ۔اس
آدمی سے معذرت کی اور گھڑی دیکھ کر اُسے وقت بتایا:
''معاف
کرنا بھائی ! میں کسی اور سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایک بج کر اُنسٹھ منٹ ہوئے ہیں ''
وہ شکریہ کہہ کر چل دیا۔لیکن اُسے وقت بتاتے ہی
ٹن سے ایک گھنٹی میرے ذہن میں بجی اور
مجھے یاد آگیا کہ میں اتنی دیر سے کیا یاد
کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
مقبول ترین
بلاگ یہ رہے:
دراصل
دوست سے بائیک اُدھار لیے ہوئے پورے دو گھنٹے گزر چکے تھے۔جو مجھے ٹھیک دو بجے
اُسے واپس کرنے جانا تھا۔میں مقررہ وقت سے
آدھا گھنٹہ قبل ہی کام مکمل کر چکا تھا لیکن پھر یاداشت آڑے آگئی اور میں بھول ہی گیا کہ ایک سب سے ضروری کام رہا جاتا ہے۔
اُدھر وہ ناہنجاربھی فقط کہنے کو میرا دوست تھا
ورنہ کمبخت وقت کا اس قدر پابندواقع ہوا تھا کہ اِدھر گھڑی نے دوبجنے کا
اعلان کیا اور اُدھر میرا موبائل چیخ اُٹھا۔ میں نے فون اُٹھانے کے بجائے اُسے میسج کیا کہ فکر
نہ کرو میں بائیک لے کر تمہاری طرف ہی آر
ہاہوں۔
میں
نے بائیک کی تلاش میں نظریں دوڑائیں تو وہ بھولے زُلف تراش کے گرم حمام کے سامنے
کھڑی نظر آئی۔میں لپک کر اُس پہ سوار ہوا
اور دوسرے ہی لمحے بائیک ہواؤں میں، معاف کیجئے گا، اندرون شہر کی گندی گلیوں میں تھی۔تھوڑا
آگے جاکر میں نے جو ایک موڑ تیزی سے کاٹا
تو ایک بزرگ بائیک کی زد میں آتے آتے بچے
لیکن وائے ری قسمت کہ اُن کو بچانے کی کوشش میں گلی کے عین بیچوں بیچ گزرنے والی نالی سے اُڑنے والی چھینٹوں نے اُن کے کاٹن کے سوٹ کا ستیاناس کر دیا۔ بوڑھے
حضرت تو جیسے ہتھے سے اُکھڑ ہی گئے۔گلی میں اِدھر اُدھر دیکھا اور جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو وہی
ہاتھ لہراتے ہوئے آگ بگولہ ہوکر بائیک کے
پیچھے لپکے۔
اُن
کی اِس حرکت پہ گلی کے ایک کونے میں بیٹھے
کتے نے بھی غالباََ یہ خیال کیا کہ کوئی میراتھن ریس شروع ہوا چاہتی ہے۔وہ بھی
اندھادُھند میرے پیچھے بھاگا۔میں نے ایکسی
لیٹر پہ ہاتھ رکھا اور گلی میں چلتے اِکا
دُکا راہگیرو ں کی پروا کیے بغیر ہوا ہو گیا۔بزرگ نے کسی حد تک اور کتے نے کافی حد
تک میرا پیچھا کیا لیکن آخر کار فتح ٹیکنالوجی کی ہوئی اور میں خیر خیریت سے مین سڑک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ
جعفری
دوست
کادفتر پانچ منٹ کی دُوری پہ تھا۔مین سڑک پہ مزید کوئی بدمزگی نہ ہوئی اور میں کچھ ہی دیر بعد اُس کے دفتر کے قریب پہنچ چکا
تھا۔اب ملین ڈالر کا سوال یہ تھا کہ
''بائیک
پارک کہاں کروں ؟''
یہ سوچتے سوچتے اچانک ہی میری آنکھیں چمک اُٹھیں ۔سڑک کے ایک طرف ایک بڑے سے بورڈ پہ
"نو پارکنگ" لکھا تھا اور حسب ِ توقع وہاں نیچے ڈھیرساری گاڑیاں کھڑی تھیں ۔میں نے بھی سیٹی بجاتے ہوئے بائیک وہیں پارک کی اور دوست کو مطلع کرنے کے بعد گھرکی راہ
لی!
اب
واپسی پہ پھر اُسی گلی میں سے گزرنا تھا
جہاں ایک بزرگ میری جلد بازی کے عتاب کا
نشانہ بن چکے تھے۔اب میرے ذہن میں کئی وہم
پلنے لگے۔سچ کہا تھا کسی نے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے ۔میں بھی تو اب عقل سے پیدل تھا۔مم۔ میرا مطلب ہے ۔کہ
بائیک سے پیدل تھا۔پیدل چلتے ہوئے دُنیا جہان کی سوچیں اور ہزاروں کبھی نہ ہونے والے کام بھی یاد آنے لگنے لگتے ہیں
۔میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں نے چند دِن
قبل ہی ایک ناول میں پڑھا تھا کہ وہم
کاہماری اصل زندگی میں پیش آنے والے
واقعات سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہوتاہے ،یا شاید یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے
الارم ہوتے ہیں ۔اب جاتے ہوئے تو میں بائیک پہ ہونے کی وجہ سے 'ریس'میں کامیاب ٹھہرا تھالیکن اب میری چھٹی حس مجھے بار
بار ڈرا بلکہ دھمکا رہی تھی کہ وہ بزرگ جن کا 'دامن'میں نے داغدار کیا تھا۔وہ وہیں کہیں بیٹھے
میری راہ تکتے ہوں گے ۔لیکن مجھے
بزرگ سے زیادہ فکر کتے کی تھی کہ بزرگ تو گندے کپڑوں کے ساتھ زیادہ دیر شاید نہ ٹھہرے ہوں لیکن کتے کے سا تھ تو ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا۔
اُس
وقت میرے ذہن میں ایک خیال شدت سے اُبھرا
کہ آج بچنے کے بعد پہلا کام یہی کرنا ہے کہ تین چار ننگے اور لاغر کتوں کی تصاویر فیس بک پہ اَپ لوڈ کرنی ہیں اور کیپشن لکھنا ہے کہ
''حکومت
کی عدم توجہی اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہزاروں بے گھر اور بے لباس کتے آپ کی توجہ کے طالب ہیں ''
مجھے یقین تھا کہ یہ تصاویر فیس بک پہ پہنچنے کی
دیر تھی، درجنوں کے حساب سے این جی اوز نے
کتوں کو لباس کی فراہمی اور اُن کے Rehabilitationمیں
جت جانا تھااور یوں کتوں کو
بے عزت ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا
تھااورپھر لامحالہ طور پر انہوں نے منہ چھپاتے پھرنا تھا۔لیکن یہ سب تو بعد کی
باتیں تھیں ۔ابھی تو مجھے آگ کے دریا کا
سامنا تھا ۔میں نے کھڑے ہو کر تمام
صورتحال کا تجزیہ کیا اور پھر بنا کچھ سوچے ہی قدم آگے بڑھائے کہ جو ہوگا دیکھا
جائے گا۔
یہ بھی
پڑھیے:
بہرحال
، متذکرہ گلی تک پہنچتے پہنچتے پھر سے میرے تمام جذبے جھاگ کی طرح بیٹھ چکے تھے۔
میں نے متوقع خدشات کے پیش نظر گلی میں داخل ہونے سے پہلے ازراہِ احتیاط جھانک کر اندر
دیکھا۔ پوری گلی سنسان پڑی تھی۔میں نے گو
یہ بھی پڑھ رکھا تھا کہ سمندر خاموش ہو تو کوئی بہت بڑا طوفان آنے والا ہوتا ہے
لیکن میں تھا تو آخر ایک کمزور انسان ہی
نا ۔سو، گلی خالی دیکھی تو باچھیں کھل گئیں
اور میں دِل ہی دِل میں سیٹی بجاتاہوا اندر داخل ہوگیا ۔اب نجانے میرے
دِل کی آوازکیونکر اونچی ہوئی کہ ابھی میں گلی کے وسط میں ہی پہنچا تھا کہ اچانک وہی کتا تیزی سے سامنے
آگیا۔ چونکہ میرے پاس 'پلان2' تو کیا 'پلان 1' بھی نہیں تھا ۔سو، میں پلٹا اور ''دُڑکی ''لگا دی۔ لیکن کیا دیکھتا ہوں
کہ گلی کے دوسرے کونے سے وہی بزرگ لاٹھی
لہراتے آ رہے ہیں ۔میری سانس رُکنے لگی اورآنکھیں مارے خوف کے بند ہونے لگیں ۔
غلطی
سے میں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ مشکل میں
ذہن زیادہ تیز چلتا ہے ۔میں نے آخری دفعہ کچھ سوچنے کی کوشش کی۔اور اِس دفعہ
واقعی میرا دماغ'چل'گیا۔میں نے بزرگ اور
کتے دونوں کے قریب آنے کا انتظار کیا ۔کتے
کا فاصلہ چونکہ تھوڑا زیادہ تھا ۔اس لیے دونوں ایک ہی وقت پر مجھ تک پہنچے۔کتے نے غالباََ آخری
چھلانگ لگا کر مجھے دبوچنا اور بزرگ نے لاٹھی برسا کر میرا کام تمام کرنا چاہا۔کتا
اور لاٹھی ابھی ہوا میں ہی تھے کہ میں نے اُچھل کر ساتھ والے مکان کی گلی کی طرف بنائی
گئی قریباََ آٹھ نو فٹ اونچی دیوار کا اُوپری کونا پکڑ لیا۔
اب
نیچے منظر دیکھنے والا تھا۔بزرگ کی لاٹھی اس زور سے کتے کے پڑی کہ میں نے بے اختیار آنکھیں میچ لیں ۔اور جب میری آنکھیں دوبارہ کھلیں تو گلی میں ایک اور' میراتھن' شروع ہو چکی تھی ۔اس مرتبہ
بزرگ کو کچھ فاصلے سے لیڈ(Lead) حاصل تھی۔یہ لیڈ گلی ختم ہونے تک کافی بڑھ گئی اور اِس مرتبہ
پچھلی دفعہ کا 'سلور میڈلسٹ'، 'برونز میڈلسٹ'سے ہار گیا۔
میں
وہیں دیوار پہ اَٹکاریس انجوائے کر رہا
تھا۔اچانک ہی میرے ہاتھوں سے دیوار نکل
گئی ۔غالباََ گھر کے اندر خاتونِ خانہ نے اپنے مجازی خدا کو پتیلی کھینچ ماری تھی
جو نشانہ خطا ہونے کے سبب میرے سر کے عین ڈیڑھ انچ کے فاصلے سے گزر گئی تھی۔اِس سے
پہلے کہ میں زمین پر گرتا میری گنہ گار آنکھوں نے ایک اور رُوح فرسا منظر دیکھا اور وہ یہ کہ
کتا ریس ہارنے کے بعد دوبارہ میری طرف ہی آرہا تھالیکن وہ کہتے ہیں ناکہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔سو یہاں قسمت نے میری یاوری کی اورمبینہ طورپر خاتونِ
خانہ کی پھینکی ہوئی پتیلی، تیزی سے میری طرف آتے کتے کے سر میں جا لگی ۔کتا کراہ کر گرا ۔میرے لیے اتنا موقع ہی
کافی تھا ۔میں نے گھر کی سمت سر پٹ دَوڑ
لگا دی!
گھر
پہنچ کر ابھی دَم بھی نہ لیا تھا کہ دروازہ بج اُٹھا ۔
ملاحظہ ہوں
شرطیہ مٹھے بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
میری
بائیں آنکھ پھڑکی اور میں سمجھ گیا کہ ہو نا ہو یہ ضرور وہی کتا ہوگا۔دروازے
میں سے جھانک کر دیکھنے سے اس خدشے کی
تصدیق بھی ہوگئی۔میرا اندازہ ہمیشہ کی طرح سو فیصد غلط تھا۔باہر محلے کا ایک مرغا
کھڑاتھا۔اُس نے چونچ میں ایک رقعہ دبا
رکھا تھا۔رقعہ دیکھ کر میرے ذہن میں جھماکا ہوا۔ایسا ہی ایک رقعہ تو کتے نے بھی
اُٹھا رکھا تھا ۔میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی مرغ نے بانگ سے بات کا آغازکیا۔لیکن
گلی سے گزرتے ایک بزرگ کے طعنے پہ کہ دوپہر کے تین بجے تم کونسی اذان دے رہے
ہو؟ وہ گھبرا کے چپ ہوگیا۔اس سے پہلے کہ
مرغ دوبارہ زبان کھولتا اور مزید کسی بزرگ زدگی کا نشانہ بنتا میں نے وہ خط اُس کی چونچ سے اچک لیا۔اتنا تو بہرحال
مجھے پتا چل ہی چکا تھا کہ وہ کتا مجھے خط دینے ہی آیا تھالیکن یہ اُس کا دِن نہیں
تھا۔اسی لیے اس پہ ہزار ہا مصیبتیں اکٹھی ہی نازل ہوگئیں جن میں سے اہم بزرگ کی لاٹھی اور اسٹین لیس سٹیل کی
پتیلی تھیں ۔بہرحال میں نے مرغ کا شکریہ
ادا کیا اور نہ ہی اس سے کتے کی موجودہ طبیعت کا پوچھابلکہ کھڑاک سے دروازہ اس کی
چونچ پہ مارا اور کمرے کی جانب چل دیا۔کمرے میں پہنچ کر میں وہ کاغذ کا ٹکڑا اسٹڈی ٹیبل کی طرف اچھال دیا
اور دیگر کاموں میں مصروف ہوگیا۔رات کو دیر گئے جب مطالعہ کی میز پہ
بیٹھا تو اُس رقعے پہ نظر پڑی۔دِن کے تمام واقعات میرے ذہن میں گھوم گئے اور میں نے مسکراتے ہوئے کاغذ اُٹھا کر کھول لیا۔لکھاتھا:
ٹیکنالوجی
سے متعلق بلاگ :
بلاگ میں اُردو نوٹو نستعلیق کا استعمال
''محترم شیخی باز کالم نگار صاحب!
آداب!
مجھے تمہارے کالم بڑے ہی اچھے لگتے ہیں لیکن اس کی یہ وجہ ہر گز نہیں کہ تم بہت اچھا لکھتے ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے
کہ میں انجمن جانوراں پاکستان میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز ہوں ۔ مجھے خوشی
ہے کہ تمہیں بھی میری طرح ہر کام سے کیڑے
نکالنے کی عادت ہے۔AJPکے
عہدیداران پر الزامات لگانے کے لیے میں اکثر تمہارے کالم سے مدد لیتاہوں ۔اس لیے میں یہ بھی پوچھنا چاہ رہا تھا کہ پچھلے چند ہفتوں سے تم باقاعدہ لکھ نہیں رہے ہو،اِس کی کیا وجہ ہے ؟ کہیں میرے مخالفین سے پیسے تو نہیں پکڑ لیے؟؟؟ دیکھو اگر ایسا ہے تو سخت غلط کر رہے
ہو۔یاد رکھوکہ وہ دِن زیادہ دُور نہیں جب
حکومتی عہدیداران میری تازہ تحریک اوردھاندلی کی دھمکیوں سے گھبراکر مڈٹرم الیکشن کرا دیں گے اور پھر ہر طرف ہماری ہی حکومت ہوگی۔آہا! کیا
سچی پیشین گوئی کر دی میں نے۔ میرے منہ میں
ہڈی گوشت۔
بہرحال،یہ
سب چھوڑو ، اس وقت تمہیں صرف یہ کہنا
مقصود ہے کہ جلد از جلد ایک دو عدددھانسو قسم کے کالم لکھو کیونکہ میں نے مستقبل قریب میں کئی جلسے ترتیب دے لیے ہیں لیکن حکومتی عہدیداران پہ الزامات کم پڑ رہے ہیں
۔دوسری اور آخری بات یہ ہے کہ اپنے اگلے کالم میں اس بات کی وضاحت بھی ضرور کرنا کہ یہ ہماری
حکومت' منی لانڈرنگ ' میں ملوث دھوبیوں کوآخر گرفتار کیوں نہیں کرتی ؟؟؟ اور ہاں ، یہ کراچی میں کسی پتلی گلی کا ذکر چل رہا تھا اُس کا کیا
ہوا؟؟؟
انقلاب
زندہ باد
والسلام
انقلاب کا اکلوتا لیڈر
ڈ۔و۔گ۔ی اپوزیشن لیڈرAJP''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
0 تبصرے