ہم
نے جب ملکی کرکٹ پر لکھنے کا سوچا تو کئی بہی خواہ کہہ اُٹھے کہ کرکٹ پہ لکھنے سے
کیا فائدہ؟؟؟میں نے مقدور بھر انہیں سمجھا نے کی کوشش تو کی کہ ہمارے ہاں جو چیز
کسی کام کی نہ رہ جائے ،وہی وقت اس پہ کچھ بھی لکھنے کے لیے موزوں ہوتا ہے اور
ہماری کرکٹ آج کل اسی اسٹیج پر ہے ۔ اور پھر ہم ایسے گئے گزرے بھی نہیں کہ ہر چیز
میں اپنا فائدہ ہی دیکھتے رہیں۔ بعض
صورتوں میں دوسروں کا نقصان زیادہ مقدّم ہوتا ہے ۔ بہرحال کرکٹ پہ لکھنے کا شاید
ہم نہ ہی سوچتے اگر مسلسل کئی میچ ہارنے پہ ایک ستم ظریف کی فیس بک پوسٹ نہ پڑھ
لیتے ۔ ظالم نے سابق صدر ممنون حسین کے بلاک بسٹر ڈائیلاگ میں فنی ترمیم کے ساتھ
لکھ رکھا تھا کہ
'' علمائے کرام پاکستان کرکٹ ٹیم کے T-20میں
تیس اوورز کھیلنے کی گنجائش پیدا کریں''
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
اس درجہ ظرافت پہ ہمیں عباس تابش یاد آئے :
میں تو اے عشق تری کوزہ
گری جانتاہوں
تو نے ہم دو کو ملایا تو
بنا ایک ہی شخص
ہم
ویسے اب تک سوچ رہے کہ ہمیں یہ شعر اس صورت ِ حال پہ ہی کیوں یادآیا۔ دو چار
توجیہات گو ہم نے ڈھونڈ نکالی ہیں جن میں سے ایک کچھ یوں ہے کہ جیسے ایک ہی جملے
کے وار سے رائٹرستم گر نے صدر، علماء اور کرکٹ ٹیم کا ستیا ناس کیا ہے غالباََ وہی سلوک عباس تابش نے دو ہی مصرعوں میں عشق ،خود اور محبوب کے
ساتھ کیا ہے۔
اب
اتنا بے معنی سوچ لینے کے بعد ہمار ابھی کچھ نہ کچھ تو لکھنا بنتا ہی تھا ۔سو ،
قلم کو ہم نے بیلچہ سمجھ لیا اور لگے کرکٹ کی قبر پہ مٹی ڈالنے۔
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
٭پہلا بیلچہ ڈالتے ہی ہمیں احساس ہوا کہ یہی تو سب سے بہتر حل تھا ۔
اگر ہم نے کرکٹ کو پہلے ہی دفنا دیا ہوتا
تو ہار جیت(بلکہ ہارہی ہار) جیسے مسائل سر ہی کیوں اُٹھاتے۔ بہرحال اب بھی زیادہ دیر نہیں گزری ۔ غریب کی
بیٹی کی شادی اور یہ کام جتنی جلدی ہو جائے ، اتنا ہی اچھا ہے۔
٭ہم مٹی کا دوسرا بیلچہ ڈالنے ہی لگے تھے کہ بیلچہ کہیں اَٹک گیا ۔
غور کرنے پہ معلوم ہوا کہ کوچ اور چند سینئر کھلاڑیوں کی اَنا تھی جو دبائے نہیں
دَبتی تھی ۔ چونکہ ہمیں بلڈوز ر دستیاب
نہیں تھا لہٰذا آری ، کلہاڑے اور ہتھوڑے استعمال کیے ۔ حکومت ِ پاکستان البتہ اس مسئلے کو سُلجھانے کے
لیے ہٹلر کی تاریخی بندوق کرائے پہ حاصل کرسکتی ہے۔
٭قبر کے ایک طرف بہت بڑا شگاف تھا
جہاں کافی مقدار میں مٹی ڈالنے کی ضرورت تھی ۔ درحقیت وہاں جونیئرز کھلاڑی تھے جن میں اعتماد
کا فقدان اورسوچ سمجھ، تکنیک اورصبر کی کمی تھی ۔ ہم نے مٹی سے بھر بھر بیلچے ان
پہ ڈالے اور ثواب و سکون پایا۔ ذمہ داران کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ان تمام خامیوں
کو دُور کرنے اور بین الاقوامی سطح پہ موقع دینے سے پہلے کھلاڑیوں سے چند سال بھیک
منگوائی جائے۔
ادب سے
متعلقہ ویڈیوز یہاں دیکھی جا سکتی ہیں۔
٭پچھلے کونے پہ مٹی ڈالنے لگا تو مٹی ختم ہونے لگی لیکن ایک چھید
تھا جو بھر ہی نہیں رہاتھا۔ اس جگہ وکٹ کیپر کے گلووز رکھے تھے جن میں بڑے بڑے
سوراخ تھے ۔ ہم نے ایک بڑا پتھر وہاں رکھا
اور اللہ اللہ خیر صلا۔ کرکٹ کے خیرخواہ ایسے وکٹ کیپرز کو کسی لینڈ سلائیڈنگ والے
پہاڑ کے نیچے کھڑا کرکے اس معاملے کو نمٹائیں۔
٭جب ہم نے کھلاڑیوں کے ساتھ ہی کھیل کا سامان بھی دفنانا چاہا تو
کرکٹ کے 'اوزار ' کم اور گالف کی لاٹھیاں زیادہ نکلیں۔ اس سے معاملہ ہم پہ کچھ
مزید کھل گیا۔ یہ یقینا ہر دو کھیلوں سے
ناواقفیت کی وجہ سے تھا۔ غالباََ اسی وجہ
سے ہمارے کھلاڑیوں کی شارٹس اور ٹیم کا اسکور گالف سے ملتا جلتاہوتا تھا۔ یہاں پہ ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ کھلاڑی
تو ناسمجھی میں مارے گئے ۔ وہ تو کرکٹ کو گالف سمجھ کر کھیل رہے تھے ۔ بہرحال ، اب کچھ ہو نہیں سکتاتھا کیونکہ جتنی
مٹی ہم ڈال چکے تھے وہ ساری دوبارہ اُٹھالینا ہمارے بس کی بات نہ تھی ۔ تاہم آئنداگر کوئی کرکٹ کھیلنا چاہے تو اس کے
لیے مشورہ یہی ہے کہ کرکٹ اور گالف کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھے۔
شرطیہ مٹھے
بلاگ:
٭آخری بیلچہ ڈالتے ہوئے
ہمیں جتنی خوشی ہورہی تھی اتنی زندگی میں
کبھی نہیں ہوئی تھی ۔ قبر تیار ہو چکی تو
ہمیں کتبے کی فکر ہوئی ۔ تھوڑی سی دوڑ
دھوپ کے بعد وہ بھی دستیاب ہو ہی گیا۔ اس
پہ ہم نے'' خطِ ذلیلی'' میں بڑا بڑا لکھوایا
''مرقد ِ پاکستان کرکٹ''
نیچے لکھی گئی تحریر ''خطِ
شرمساری '' میں تھی ۔ 'ڈورے 'مان کے ساتھ لکھوایا گیا:
تاریخ پیدائش:ایسی غلطیاں
یادرکھنے کے لائق نہیں ہوتیں۔
تاریخ وفات: ہر اُس دن جب
جب کوئی میچ کھیلا گیا۔
ساتھ
ہی ایک وضاحتی بیان کی چِٹ بھی لگا دی گئی:
اس
ٹیم میں بے شمارقابلِ تعریف خامیاں تھیں: جیسے بیٹنگ میں سپن باؤلنگ کو سمجھ نہ
سکنااور فاسٹ باؤلنگ کو کھیل نہ سکنا۔ فیلڈرز کا گیند کو گولی اورباؤلرز کااسے گالی
سمجھنا۔
بہرحال
، چونکہ مرحوم /مرحومہ چاہے زندگی میں گندے انڈے بیچنے کا کاروبار کرتے ہوں لیکن
دستور ہے کہ موت کے بعد انہیں اچھے لفظوں سے یاد کیا جا تا ہے ۔سو ،کتبے کے آخر
میں بھی یہی درج تھا کرایا گیا کہ
''حق مغفرت کرے ،عجب فراڈ مرد تھا''
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے