چند
دن پہلے گاؤں میں میرے ایک بچپن کے دوست اور کلاس فیلو کی شادی تھی۔شادی والے دن
صبح صبح ہوا نے ہلکے جھکڑ کا روپ دھار لیا۔میں کسی کام سے جارہاتھا تو ایک بزرگ نے
مجھے روکااور بولے:
''لگتا
ہے تمہارے دوست کے کرتوت کچھ اچھے نہیں
رہے''
میں
اس اچانک حملے پہ گھبرا گیا:
''کیا
مطلب ہے آپ کا بابا جی؟''
''پتر
دیکھو!اگر شادی والے آندھی چلنے لگے تو بڑے بوڑھوں کے مطابق اس کا مطلب یہ ہوتا ہے
کہ آدمی بڑا ندیدہ ہے اورکھانے کی دیگیں
چاٹتا رہا ہے ''
مجھے
ہنسی آگئی ۔
''بابا
جی !آپ نے اُس کی صحت دیکھی ہے نا؟کیا اُسے دیکھ کے لگتا ہے کہ اس نے کوئی بھی دیگ
کبھی چاٹی ہوگی؟''
بزرگ
نے قہقہہ لگایا مگر بڑبڑاتے ہوئے نکل گئے کہ
''
بھلے تم مانو یا نہ مانو لیکن بڑے بوڑھوں
کا کہا جھوٹ نہیں ہوتا''
میرا بغلول دوست اے آئی کی نظر میں
مزید دِل
چسپ بلاگ:
ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔
ابھی ہم لوگ شادی میں مصروف تھے کہ گاؤں کے ایک
معزز آدمی کے انتقال کی خبر ملی ۔نمازِ جنازہ اگلے دن تھی۔اس پر شادی کی دیگر
رسومات ترک کر دی گئیں اور سادگی سے دولہادلہن کا نکاح پڑھا دیا گیا ۔ اگلے دن
نمازِ جنازہ کے بعد پھر وہی بزرگ ملے تو گویا ہوئے:
''پتر
!میں ہی غلط تھا وہ آندھی تمہارے دوست کی ندیدگی ثابت کرنے کے لیے نہیں چلی تھی''
میں
نے ایساانقلاب کبھی دیکھا نہ سنا تھا
سوجواب میں' شکریہ' کہہ کر جانے لگا تو انہوں نے میرا ہاتھ تھام لیااورگلوگیر
لہجے میں میت کی طرف اشارہ کیا:
''وہ
آندھی تو میرے دوست کی راہیں صاف کرنے کے لیے چلی تھی''
''جی ؟؟؟''
مجھے
حیرت کا جھٹکا لگا۔
''ہاں
!بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ جب کسی کی وفات سے چند ساعتیں پہلے آندھی چلنے لگے تو اس
کی بخشش کی راہیں ہموار ہو رہی ہوتی ہیں
بلاشبہ جنتی ہے میرا دوست''
انہوں
نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور آنکھیں پونچھتے ہوئے دوست کے آخری دیدار کو بڑھ گئے ۔
ادبی وی
لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔
مجھے
اس واقعے سے ملتا جلتا ایک'بورنگ'سا لطیفہ بھی یاد آرہا ہے ۔ کہیں کوئی کاہل شخص
فوت ہواتو تعزیت کے لیے آنے والے اس کے دوستوں نے اس کی اچھائی میں زمین آسمان کے
قلابے ملانے شروع کردیئے۔ ساتھ کے کمرے میں مرحوم کی خاتونِ خانہ نے ان کی'دل
آزار' باتیں سنیں تو اپنی سہیلی سے کہنے لگی:
''موئے
!نجانے کس کا ذکر لے کر بیٹھ گئے ہیں''
ایک نظر اِدھر بھی:
کہنے
کو شاید یہ محض دلچسپ واقعات سے زیادہ نہ ہوں ۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو ہماری
پوری قوم کی سوچ کا عکاس ہیں ۔ ہم زندہ لوگوں پر زمین تنگ کردیتے ہیں اورگزر جانے
والوں کے سب گناہ معاف کرنے پہ تل جاتے ہیں۔ زندگی میں کبھی ان کے لیے کلمہ خیر
ہمارے منہ سے نہیں نکلتا لیکن مرنے کے بعد ان پہ لگے تمام الزامات کو بھی اعزازات
سمجھ لیتے ہیں۔زندہ کا نام تک نہیں جانتے اور چلے جانے پہ نشانِ حیدر تک وار دیتے
ہیں۔زندگی میں ان کی کسی بات پر کسی آمین نہیں کہتے اور نہ رہنے پر وہ جیسے بھی
ہوں، ان کوجھاڑ پونچھ کے رحمتہ اللہ علیہ کی کھونٹی پر لٹکادیتے ہیں۔ جبھی تو
ہمارے ہاں کئی سیاسی پارٹیاں 'زندہ ہے بھئی زندہ ہے 'کے فارمولے پہ کامیاب ہوئی
جارہی ہیں۔لیکن ذرا غور کیا تو علم ہوا کہ ہم خوشیوں کے دشمن ہیں ۔ہم اکثر کہتے
ہیں کہ ہمیں خوشیاں راس نہیں آتیں لیکن دراصل ہم خود خوش رہنا ہی نہیں چاہتے ۔ جون
ایلیا کی بے باکی یادآگئی:
کیا
تکلّف کریں یہ کہنے میں
جو
بھی خوش ہے، ہم اُس سے جلتے ہیں
آپ
تجربہ کرکے دیکھ لیں ۔ آپ کے ارد گرد کتنے ہی ایسے لوگ ہوں گے جو قبرستان میں زیرِلحد
پڑے انسانوں کی یاد میں تو'صدیاں ' منا رہے ہوں گے لیکن پڑوس میں کسی نمازی کی
اچھائی اور پرہیز گاری کی گواہی دینے سے قبل ہزار بار سوچیں گے ۔ ہم خوشیوں سے
بدظن ہیں اس لیے خوشیاں ہم سے ناراض ہیں۔ یہ میرا فلسفہ نہیں ۔ جدید سائیکالوجی
کا' لاء آف اٹریکشن' ہے۔ احمد ندیمؔ قاسمی نے ایک حسب ِ حال شعر میں دریاکو کوزے
میں سمورکھا ہے ملاحظہ ہو:
مقبرے بنتے ہیں زندوں کے
مکانوں سے بلند
کس قدر اَوج پہ تکریم ہے
اِنسانوں کی
یہ بھی
پڑھیے:
0 تبصرے