پنجاب میں'ناموں ' کے ساتھ ایک
خاص 'امتیازی سلوک'روا رکھا جاتا ہے۔ماں باپ بچوں کا جو نام رکھ دیں وہ ہماری
زبانوں کو راس نہیں آتے ۔ ہم ان میں 'حسب ِتوفیق 'اور'حسب ِ خواہش'اضافہ اپنا حق
گردانتے ہیں ۔ یوں اچھے بھلے نام کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ بڑی بوڑھیوں سے
تواِس ضمن میں کوئی خصوصی'انتقام'ہی لیا جاتا ہے۔ چاہے محترمہ کا نام کتنا ہی اچھا
کیوں نہ ہو ہم اس کے ساتھ'بے' کے سابقے کا اضافہ فرضِ عین سمجھ کر کرتے ہیں۔ اگر
کوئی بڑھیا اکیلی ہوتو پھر صرف'بے 'یا 'بے جی 'سے بھی کام چل جاتا ہے لیکن اگر دو
چار بزرگ خواتین اکٹھی موجود ہو ں تو ہر ایک کے نام سے پہلے 'بے 'کا اضافہ ضرور
کیا جاتا ہے ۔جیسے بے مستور، بے آسیہ، بے
داری وغیرہ وغیرہ…
ادبی وی لاگزکے لیے یوٹیوب چینل ڈی'وائنز یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
اب
بات چل نکلی ہے تو لگے ہاتھوں ایک مثال بھی دیکھ لیں:ہمارے ہمسائے میں ایک بی اماں
تھیں،جن کا نام گھر والوںنے بڑے چاؤ سے 'خانماں بی'رکھا تھالیکن وہ ہمارے 'امتیازی
سلوک' کے سبب 'بے خانماں 'ہوگیا۔مجھے بھی جب تک 'خانماں 'او ر'بے خانماں'کامطلب
معلوم نہیں تھا انہیں ایسے ہی 'تکریم و تعزیم 'سے پکارتارہالیکن جب سے ان الفاظ کے
معانی معلوم ہوئے ہیں اکثر وقت اس بات پر شکر ادا کرتے گزرتا ہے کہ 'خانماں بی
'اَن پڑھ تھیں…
لُچر و فحش زبانی سے پاک ادبی وی لاگز یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
مزید پڑھیں:
0 تبصرے