Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

جسے اللہ رکھے!

 JisayAllahRakhay, JisayAllahRakhyUsayKonChakhay, Bike, Comedy, Fun, nawaiwaqtColumns, dailyjangColumns, sohailwarraich, urduColumns, expressColumns,

بائیک کی تلاش میں  نظریں  دوڑائیں  تو وہ بھولے زُلف تراش کے گرم حمام کے سامنے کھڑی نظر آئی۔میں  لپک کر اُس پہ سوار ہوا اور دوسرے ہی لمحے بائیک ہواؤں  میں،  معاف کیجئے گا، اندرون شہر کی گندی گلیوں  میں  تھی۔تھوڑا آگے جاکر میں  نے جو ایک موڑ تیزی سے کاٹا تو ایک بزرگ بائیک کی زد میں  آتے آتے بچے لیکن وائے ری قسمت کہ اُن کو بچانے کی کوشش میں  گلی کے عین بیچوں  بیچ گزرنے والی نالی سے اُڑنے والی چھینٹوں  نے اُن کے کاٹن کے سوٹ کا ستیاناس کر دیا۔

 بوڑھے حضرت تو جیسے ہتھے سے اُکھڑ ہی گئے۔گلی میں  اِدھر اُدھر دیکھا اور جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو وہی ہاتھ لہراتے ہوئے آگ بگولہ ہوکر  بائیک کے پیچھے لپکے۔اُن کی اِس حرکت پہ گلی کے ایک کونے میں  بیٹھے کتے نے بھی غالباََ یہ خیال کیا کہ کوئی میراتھن ریس شروع ہوا چاہتی ہے۔وہ بھی اندھادُھند میرے پیچھے بھاگا۔میں  نے ایکسی لیٹر پہ ہاتھ رکھا اور گلی میں  چلتے اِکا دُکا راہگیرو ں کی پروا کیے بغیر ہوا ہو گیا۔بزرگ نے کسی حد تک اور کتے نے کافی حد تک میرا پیچھا کیا لیکن آخر کار فتح ٹیکنالوجی کی ہوئی اور میں  خیر خیریت سے مین سڑک تک پہنچنے میں  کامیاب ہوگیا۔

مزید دِل چسپ  بلاگ:

بات پہنچی تیری جوانی تک

ہاں! تو میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔

بھونڈی

دوست کادفتر پانچ منٹ کی دُوری پہ تھا۔مین سڑک پہ مزید کوئی بدمزگی نہ ہوئی اور میں  کچھ ہی دیر بعد اُس کے دفتر کے قریب پہنچ چکا تھا۔اب ملین ڈالر  سوال یہ تھا کہ

''بائیک پارک کہاں کروں ؟''

 یہ سوچتے سوچتے اچانک ہی میری آنکھیں  چمک اُٹھیں ۔سڑک کے ایک طرف ایک بڑے سے بورڈ پہ "نو پارکنگ" لکھا تھا اور حسب ِ توقع وہاں  نیچے ڈھیرساری گاڑیاں  کھڑی تھیں ۔میں  نے بھی سیٹی بجاتے ہوئے بائیک وہیں  پارک کی اور دوست کو مطلع کرنے کے بعد گھرکی راہ لی!

اب واپسی پہ پھر اُسی گلی میں  سے گزرنا تھا۔ جہاں  ایک بزرگ میری جلد بازی کے عتاب کا نشانہ بن چکے تھے۔اب میرے ذہن میں  کئی وہم پلنے لگے۔سچ کہا تھا کسی نے کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے ۔میں  بھی تو اب عقل سے پیدل تھا۔مم، میرا مطلب ہے کہ بائیک سے پیدل تھا۔پیدل چلتے ہوئے دُنیا جہان کی سوچیں  اور ہزاروں  کبھی نہ ہونے والے کام بھی یاد آنے لگنے لگتے ہیں ۔میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔

ادبی وی لاگز یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

میں  نے چند دِن قبل ہی ایک ناول میں  پڑھا تھا کہ وہم کاہماری اصل زندگی میں  پیش آنے والے واقعات سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہوتاہے ،یا شاید یہ قدرت کی طرف سے ہمارے لیے الارم ہوتے ہیں ۔اب جاتے ہوئے تو میں  بائیک پہ ہونے کی وجہ سے 'ریس'میں  کامیاب ٹھہرا تھا۔لیکن اب میری چھٹی حس مجھے بار بار ڈرا بلکہ دھمکا رہی تھی کہ وہ بزرگ جن کا 'دامن'میں  نے داغ دار کیا تھا۔وہ  وہیں  کہیں  بیٹھے  میری راہ تکتے ہوں  گے ۔ مجھے بزرگ سے زیادہ فکر کتے کی تھی کہ بوڑھے میاں تو گندے کپڑوں  کے ساتھ زیادہ دیر شاید نہ ٹھہرے ہوں  لیکن کتے کے سا تھ تو ایسا کوئی مسئلہ نہ تھا۔اُس وقت میرے ذہن میں  ایک خیال شدت سے اُبھرا کہ آج بچنے کے بعد پہلا کام یہی کرنا ہے کہ تین چار ننگے اور لاغر کتوں  کی تصاویر فیس بک پہ اَپ لوڈ کرنی ہیں  اور کیپشن لکھنا ہے کہ

 ''حکومت کی عدم توجہی اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے ہزاروں  بے گھر ، بے لباس کتے آپ کی توجہ کے طالب ہیں ''

یہ بھی پڑھیے:

عوامی عدالت

بڑے بوڑھے

عیّاریاں

 مجھے یقین تھا کہ یہ تصاویر فیس بک پہ پہنچنے کی دیر تھی، درجنوں  کے حساب سے این جی اوز نے کتوں کو لباس کی فراہمی اور اُن کی Rehabilitationمیں  جُت جانا تھااور یوں  کتوں  کو بے عزت ہونے سے کوئی نہیں  بچا سکتا تھا۔ پھر لامحالہ طور پر انہوں نے منہ چھپاتے پھرنا تھا۔لیکن یہ سب تو بعد کی باتیں  تھیں ۔ابھی تو مجھے آگ کے دریا کا سامنا تھا ۔میں  نے کھڑے ہو کر تمام صورتحال کا تجزیہ کیا اور پھر بنا کچھ سوچے ہی قدم آگے بڑھائے کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔بہرحال ، متذکرہ گلی تک پہنچتے پہنچتے پھر سے میرے تمام جذبے جھاگ کی طرح بیٹھ چکے تھے۔ میں  نے متوقع خدشات کے پیش نظر گلی میں  داخل ہونے سے پہلے ازراہِ احتیاط جھانک کر دیکھا۔ پوری گلی سنسان پڑی تھی۔میں  نے گو یہ بھی پڑھ رکھا تھا کہ سمندر خاموش ہو تو کوئی بہت بڑا طوفان آنے والا ہوتا ہے لیکن میں  تھا تو آخر ایک کمزور انسان ہی نا ۔سو، گلی خالی دیکھی تو باچھیں  کھل گئیں  اور میں  دِل ہی دِل میں  سیٹی بجاتاہوا اندر داخل ہوگیا۔

اب نجانے میرے دِل کی آوازکیونکر اونچی ہوئی کہ ابھی میں  گلی کے وسط میں  ہی پہنچا تھا کہ اچانک وہی کتا تیزی سے سامنے آگیا۔ چونکہ میرے پاس 'پلان2' تو کیا 'پلان 1' بھی نہیں  تھا ۔سو، میں  پلٹا اور ''دُڑکی ''لگا دی۔ لیکن کیا دیکھتا ہوں  کہ گلی کے دوسرے کونے سے وہی بزرگ لاٹھی لہراتے آ رہے ہیں ۔میری سانس رُکنے لگی اورآنکھیں  مارے خوف کے بند ہونے لگیں  ۔غلطی سے میں  نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ مشکل میں  ذہن زیادہ تیز چلتا ہے ۔میں  نے آخری دفعہ کچھ سوچنے کی کوشش کی۔اور اِس دفعہ واقعی میرا دماغ'چل'گیا۔میں  نے بزرگ اور کتے دونوں  کے قریب آنے کا انتظار کیا ۔کتے کا فاصلہ چونکہ تھوڑا زیادہ تھا ۔اس لیے دونوں  ایک ہی وقت پر مجھ تک پہنچے۔کتے نے غالباََ آخری چھلانگ لگا کر مجھے دبوچنا اور بزرگ نے لاٹھی برسا کر میرا کام تمام کرنا چاہا۔کتا اور لاٹھی ابھی ہوا میں  ہی تھے کہ میں  نے اُچھل کر ساتھ والے مکان کی گلی کی طرف بنائی گئی قریباََ آٹھ نو فٹ اونچی دیوار کا اُوپری کونا پکڑ لیا۔

اب نیچے منظر دیکھنے والا تھا۔بزرگ کی لاٹھی اس زور سے کتے کے پڑی کہ میں  نے بے اختیار آنکھیں  میچ لیں ۔اور جب میری آنکھیں  دوبارہ کھلیں  تو گلی میں  ایک اور' میراتھن' شروع ہو چکی تھی ۔اس مرتبہ بزرگ کو کچھ فاصلے سے لیڈ(Lead) حاصل تھی۔یہ لیڈ گلی ختم ہونے تک کافی بڑھ گئی اور اِس مرتبہ پچھلی دفعہ کا سلور میڈلسٹ، برونز میڈلسٹ سے ہار گیا۔

میں  وہیں دیوار پہ اَٹکاریس انجوائے کر رہا تھا۔اچانک ہی میرے ہاتھوں  سے دیوار نکل گئی ۔غالباََ گھر کے اندر خاتونِ خانہ نے اپنے مجازی خدا کو پتیلی کھینچ ماری تھی جو نشانہ خطا ہونے کے سبب میرے سر کے عین ڈیڑھ انچ کے فاصلے سے گزر گئی تھی۔اِس سے پہلے کہ میں  زمین پر گرتا،   میری گنہ گار آنکھوں  نے ایک اور رُوح فرسا منظر دیکھا اور وہ یہ کہ کتا ریس ہارنے کے بعد دوبارہ میری طرف ہی آرہا تھالیکن وہ کہتے ہیں  ناکہ جسے اللہ رکھے اُسے کون چکھے۔سو  یہاں  قسمت نے میری یاوری کی اورمبینہ طورپر خاتونِ خانہ کی پھینکی ہوئی پتیلی، تیزی سے میری طرف آتے کتے کے سر میں  جا لگی ۔کتا کراہ کر گرا ۔میرے لیے اتنا موقع ہی کافی تھا ۔میں  نے گھر کی سمت سر پٹ دَوڑ لگا دی!

یہ بھی چکھیں:

میرے ندیمؔ

چکوال میں اُردو شاعری کے گاڈ فادر ۔ عابدؔ جعفری

ایشیاء کا پرندہ ۔ عبدالخالق

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے