Ad Code

Ticker

6/recent/ticker-posts

مرید پور کے دوسرے قاضی کوشیکسپئرکی نصیحت

 Mureed Pur Ka Doosra Qazi Aur Shakespear, Shakespear, Funny Column, Confidence building, How to build confidence, Quotation, Motivation, Inspiration,

شنید ہے کہ ایک حضرت کو تقریر کرنے کا بے حد شوق چرایالیکن اپنے اس شوق کو پایہء ِتکمیل تک پہنچانے کی کوئی صورت انہیں نظر نہ آتی تھی کہ پیشتر اس کے کبھی کوئی ایسا عمل ان سے سر زد نہ ہوا تھامگر کرتے تو کیا کہ دل کے ہاتھوں مجبور تھے بالآخر انہوں نے پنجابی کے اس محاورے ”شوق دا کوئی مُل نئیں“ (شوق کی کوئی قیمت نہیں)پر عمل کرتے ہوئے ایک تقریری مقابلے میں اپنا نام لکھوادیا۔نام لکھوانے کے بعد ذہن کے نہاں خانوں میں تقریر کی مشق شروع کردی.ان دنوں وہ اکثر گم سم پائے جاتے کیونکہ وہ ذہن اور تصور میں خود کو مقرر سمجھ بیٹھے تھے اور خیال ہی خیال میں حاضرین پر تقریریں جھاڑکر خوش ہوا کرتے تھے۔

  اُن کے حق میں یہ فلاسفی درست ثابت ہوئی کہ ”ہونی کو کوئی روک نہیں سکتا“،ہوا یہ کہ مقابلے کا دن آپہنچا۔موصوف تیار ہوکر، خوب سج دھج کے تشریف لائے۔تحریر شدہ کوئی تقریر ساتھ لی اور نہ اس کی ضرورت سمجھی کہ وہ اپنے خیال میں خود کو ایک زبر دست مقرر گردانتے تھے ۔اب ہوا اُن کے ساتھ یہ ،کہ جب اپنا نام پکارے جانے پر سٹیج پہ پہنچے تو اپنی جانب لاتعداد حاضرین کو ”گھورتے “دیکھ کر ان کی سٹّی گم ہوگئی۔لڑکھڑاتے قدموں کو سنبھالتے ہوئے بمشکل ڈائس تک پہنچ تو گئے لیکن اب ان کے ذہنِ رسا سے الفاظ یوں غائب تھے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ان کے ساتھ بھی وہی صورتحال پیش آئی جو ابنِ انشاءکے ساتھ ”مرید پور کا قاضی “میں پیش آئی تھی۔بہر طور، انہوں نے اپنے حواس کو قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مائیک کو ہاتھ سے ہِلا جُلا کر دیکھا اور اسے ”آن“پاکر واپس پلٹنے ہی لگے تھے کہ جھٹ سے انہیں یاد آیا کہ وہ یہاں تقریر کرنے آئے ہیں ،الیکٹریشن کا کام کرنے نہیں۔

مزید دِل چسپ بلاگ:

جائیے! منہ دھو رکھئے

ہم خواہ مخواہ معذرت خواہ ہیں

اسپانسرڈ شاعرات

  مزید حواس باختگی کے ساتھ انہوں نے ڈائس کو مضبوطی سے تھام لیا(دیکھنے والے اگر اب یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے ڈائس کو بھاگنے سے روکنے کے لیے تھاما تھا توہم کیا کر سکتے ہیں کہ ”جمہوریت“میں کوئی کچھ بھی کہہ سکتاہے)۔مزید کچھ لمحے گزرنے کے بعد انہیں خیال آیا کہ انہیں وہاں کچھ نہ کچھ بولنا بھی تھاکہ سامنے بیٹھے ،ان کو گھورتے ،لاتعدادسامعین ان کو ”مجسمہ “بنے دیکھنے میں قطعی دلچسپی نہ رکھتے تھے۔

  اب خدا خدا کرکے چند الفاظ ان کے ذہن میں آ ہی گئے۔انہوں نے ہڑ بڑا کر کہا:

”حح حاحا ضرین!“

(تمام یاد آئے الفاظ پھر کسی ”دعوت“پہ چلے گئے)

وہ چند لمحے توقف کے بعد پھر گویا ہوئے:

”حح .....حاضرین!حاضرین کرام!میں نےجو کچھ کہناتھاوہ مجھے معلوم تھایاخداکو لیکن اب وہ خداکوہی معلوم ہے!“

ادبی وی لاگز  یہاں دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس کے بعد کیا حوادث پیش آئے،”تاریخ“ اس سے متعلق بالکل خاموش ہے البتہ مجھے یہ واقعہ ملا تو سوچا کہ کیوں نہ خود اعتمادی کے نفسیاتی پہلو پر کالم لکھا جائے(ایک ”اہم“وجہ یہ بھی تھی کہ کوئی ڈھنگ کا موضوع ہی نہیں سُوجھ رہا تھا)۔

 خود اعتمادی دراصل انسان کا خود پر اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد کانام ہے۔خود اعتمادی کی پہلی سیڑھی علم ہے۔علم سے مراد کسی بھی طرح کا علم ہ۔آپ نے اکثر مشاہدہ کیاہوگاکہ دیہاتوں کے اَن پڑھ لوگوں کو اگر کسی افسر کے سامنے بااَمرِمجبوری بھی جانا پڑے تو ان کی حالت کیا ہوتی ہے؟؟؟ہفتہ قبل ہی صاحب سے ”ملاقات“کی تیاری شروع ہوجاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اُن سے موقع پر کئی لطیفے سرزد ہوجاتے ہیں۔اس مسئلے کانسخہ شیکشپئرنے یوں بتایاکہ

What is success? Know more than others, work more than others and expect less than others. “

(کامیابی کیاہے ؟دوسروں سے زیادہ علم رکھنا،دوسروں سے زیادہ محنت کرنااور دوسروں سے توقعات کم سے کم وابستہ کرنا)۔

مجھے شیکسپئر کے اس قول سے سو فیصدی اتفاق کرتاہوں کیونکہ خود اعتمادی ہی کامیابی کادوسرانام ہے۔

 خود اعتمادی کی دوسری سیڑھی ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ بغیر کسی جھجھک اور ہچکچہاہٹ کے گفتگو کرنا ہے ۔ یہ سب سے اہم مرحلہ ہے کیونکہ آپ کے پاس علم ہو اور آپ اسے پھیلائیں نہیں،تویہ ایساہی ہے کہ جیسے رُکا ہوا پانی ،جو بہت جلد بدبودار ہوجاتاہے لہٰذا اپنی شخصیت کو پاکیزہ اور خوشبوداررکھنے کے لیے بھی دوسروں کے ساتھ بات چیت بہت ضروری ہے۔

  خود اعتمادی کو تیسری اور انتہائی سیڑھی ،بہترین منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرنا ہے۔آپ جو بھی کام کرنا چاہتے ہوں ،جس بھی منزل کو پانا مقصود ہو،اس کے لیے پہلے باقاعدہ منصوبہ بندی کریں۔کتب، رسائل اور اخبارات سے مدد لیں،اساتذہ سے بھی مشورہ کریںااور دوستوں سے مختلف تجاویز بھی لیں، پھر ان تمام باتوں، مشوروں اور تجاویزمیں سے جو آپ کے دل کو لگیں،انہیں اپنے منصبوبے کے نکات میں شامل کر لیں اور پھر دل و جان سے اس منصوبے کو پایہ ءِ تکمیل تک پہنچانے کے لیے محنت کریں۔

  اگر آپ واقعی کسی منزل کی تلاش میں مندرجہ بالا نکات پہ عمل کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کامیابی سے ہمکنار نہ ہوں۔یاد رکھیں کہ صرف محنت ہی کامیابی کی کنجی ہے،شیخ چلی کی طرح ہوائی قلعے تعمیر کرنے والوں کے ہاتھ محض رُسوائی کے اور کچھ نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیے:

عیّاریاں

نیو بِگ بینگ تھیوری

میرے ندیمؔ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے